مزاحیہ ادب کا مشہور کردار جو اپنی حاضر جوابی اور بے ساختگی کی وجہ سے مشہور ہے


 میرا ایک بہت   پڑھا لکھا دوست تھا ایک دفعہ اس نے مجھ سے ملنے کے لیے میرے گھر آنے کا دن مقرر کیا اور گھر پہنچ گیا اس دوران میں بھول گیا اور کسی کام سے باہر چلا گیا اس دن گھر پر کوئی نہیں تھا اس لئے باہر تالا لگا کر گیا تھا دوست نے جب دروازے پر تالا دیکھا تو اسے بہت غصہ آیا اس نے جل کر دروازے پر ہی بیوقوف پاجی لکھا اور چلا گیا


جب میں گھر واپس آیا تو یہ لکھا دے کر مجھے یاد آیا میں فورا دوست کے گھر پہنچا معذرت کی اور معافی مانگتے ہوئے کہا معاف کرنا میں تو بالکل بھول ہی گیا تھا آپ میرے غریب خانے پر تشریف لانے والے ہیں آپ کو زحمت وی میں گھر پر نہیں تھا مجھے تو اس وقت یاد آیا جب دروازے پر آپ کا نام لکھا دیکھا



 ایک اور لطیفہ




ایک بھکاری نے میرا گھر دیکھ لیا میرے گھر پر آتا اور کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ کچھ پیسے بھی مانگ لیتا آخر میں اس سے عجز آگیا مگر اس سے جان چھڑانے کی کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آرہی تھی ایک دن میں کھانا کھانے کے لئے بیٹھا تو  وہی بھکاری آدھمکا میں نے منہ بگاڑ کر کہا آخر تو ہے کون جسے روزانہ   آنے کی عادت پڑ گئی ہے بھکاری نے کہا خدا کا مہمان ہوں میں نے فورا بھکاری کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے جا کر جامع مسجد کی طرف چلا مسجد کے دروازے پر پہنچ کر میں نے اس سے کہا کہ اب تک تو سخت بھوکے میں تھا وہ گھر جہاں تو روز آتا ہے وہ میرا گھر ہے لیکن جب تو نے بتایا کہ تو خدا کا مہمان ہے تم میں نے اس میں بڑی بے حرمتی محسوس کی کہ خدا کے مہمان کو خدا کے گھر سے لاعلم رکھو خبردار تو نے اب میرے گھر کا رخ کیا خدا کے مہمان خدا کے گھر کو اچھی طرح پہچان لے اور ادھر ادھر نہ بھٹکا کر


 ایک اور لطیفہ                                                               

میرے گھر کے بلکل سامنے ایک درویش صفت نیک سیرت شخص رہتا تھا جس سے سب آغا صاحب کہتے تھے ایک دم موسلا دھار بارش ہو رہی تھی عذاب قبر سے بچنے کے لیے کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں تیز قدم اٹھا رہے تھے میں نے جو انہیں یوں بارش  سے بچتے دیکھا تو زور سے کہا ارے آغا صاحب آپ خدا کی رحمت سے کیوں بھاگ رہے ہیں ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ کو ماننا چاہیے کہ بارش تمام مخلوقات کے لئے رحمت ہے میری یہ بات سن کر آغا صاحب شرمندہ ہو گئے کہنے لگے خدا کی قسم میرا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں


بہت اچھی بات بتائی آپ نے یہ کہہ کر آغا صاحب اتنی نان سے بھی کرتے ہوئے گھر پہنچے انہیں ٹھنڈ لگ گئی بیمار ہوگئے وہ گھر کی کھڑکی کے ساتھ چارپائی پر کمبل اوڑھے لیتے تھے اور میں ان کے سامنے والی  کھڑکی میں گھر میں آرام سے بیٹھا تھا کوئی کی نظر مجھ پر پڑی تو بولے تم  اللہ تعالی کی اس رحمت سے کیوں بچ رہے ہو  باہر نکل کر اس رحمت سے فیض آباد کیوں نہیں ہوتے میں نے جواب دیا آغا صاحب آپ کی عقل کو کیا ہوگیا ہے یہ اللہ کی رحمت ہے میں اسے اپنے قدموں سے نہ پاک کرنا نہیں چاہتا






Post a Comment

0 Comments