1000 سونے کی اشرفیاں مرتبان میں رکھی تھی کہاں گئی بغداد کا تاجر

 عراق کے شہر بغداد میں علی نام کا ایک تاجر رہتا تھا وہ تجارت کے سلسلے میں دوسرے ممالک کا سفر کرتا رہتا تھا ایک ملک سے سامان خرید تا اور دوسرے ملک میں فروخت کر دیتا اور منافع کماتا ایک دفعہ اسے لمبے سفر پر جانا پڑا تو اس نے اپنے گھر کا سارا سامان فروخت کر دیا اور مکان کرایہ پر دے دیا اب اس کے پاس سونے کی ایک ہزار اشرفیاں تھی اور اسے ایک ایسی جگہ کی ضرورت تھی جہاں وہ یہ ساری رقم باحفاظت چھپا سکے اور واپسی پر اسے مل بھی جائے کافی سوچ بچار کے بعد اس نے ایک بڑا سا مرتبہ لیا اور اپنی ساری اشرفیاں اس میں ڈالیں اور ان کے اوپر زیتون بھر دیے پھر اس مرتبان کا منہ مضبوطی سے بند کر دیا



اور وہ مرتبان   ایک تاجر دوست کے پاس لے گیا اور اس سے کہنے لگا میرے دوست جیسا کہ تم جانتے ہو میں ایک دو روز میں اپنے سفر پر روانہ ہو جاؤں گا اس لئے میں تم سے درخواست کرتا ہوں کے تم میری واپسی تک یہ دونوں سے بھرا مرتبان اپنے پاس امانت رکھ لوں واپسی پر میں تم سے یہ لے لوں گا تاج دوست نے وعدہ کر لیا اور خوشدلی سے بولا یہ لو میرے گودام کی چابی اور تم خود ہی جاکر یہ گودام کے اندر جانا دل جائے وہاں رکھ دو اور یقین رکھو کہ جب تم واپس آؤ گے تو تمہیں یہ وہی پڑا ملے گا اور تم خود ہی اس کو وہاں سے جاکر اٹھاؤ گے تمہاری غیر موجودگی میں کوئی اس کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا علی خوش ہوگیا مرتبان اپنے دوست کے گودام میں رکھ کر چابیاں اسے واپس کی اور خود اپنے لمبے سفر پر روانہ ہوگیا علی کا سفر اس کی توقع سے زیادہ طویل ہو گیا اور وہ پورے سات برس تک بغداد سے باہر رہا



اس سارے عرصے کے دوران اس کے تاجر دوست نے جس کے پاس علی نے مرتبان امانت رکھوایا تھا وہ علی کو تقریبا بھول ہی گیا اس کو وہ مرتبہ ان بھی یاد نہ رہا جو الیاس کے گودام میں رکھ کر گیا تھا ایک شام وہ تاجر بنی بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھا رات کا کھانا کھا رہا تھا تو باتیں کرتے کرتے اچانک زیتون کا ذکر آگیا تاجر کی بیوی حضرت بہرے لہجے میں بتانے لگی کہ اس نے کافی عرصے سے زیادہ تو نہیں چکے بلکہ اب تو وہ ان کا ذائقہ ہی بھول گئی ہے یوں ہی اس کی بیوی نے زیتون کا ذکر کیا تو تاجر کو علی کا مرتبہ نہ یاد آ گیا اور وہ بولا تمہاری باتوں سے مجھے یاد آگیا ہے میرا ایک تاجر دوست علی سات سال پہلے میرے پاس زیتون سے بھرا ایک  مرتبان امانت رکھوا گیا تھا اور کہہ گیا تھا کہ واپسی پر لے لے گا مگر اب تو سات سال گزر گئے اس کی کوئی خیر خبر نہیں آئی معلوم نہیں اب وہ زندہ بھی ہے یا نہیں آخری دفعہ جو کافلہ واپس آیا تھا اس نے بتایا کہ علیم سر چلا گیا ہے اور اس کے بعد سے آج تک اس کا علم نہیں اس لیے میرا خیال ہے کہ اب ہمیں اس کے زیتون استعمال کر لینے چاہیے



پھر وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا مجھے ایک چراغ اور ایک طشتری پکڑو میں گودام میں جاکر اس مرتبہ میں سے چند زیتون نکال لاتا ہوں ارے نہیں اس کی بیوی ایک دم پریشان ہوگی ایسا کام مت کرو یہ امانت میں خیانت ہو جائے گی کسی کا بھروسہ توڑنا بہت بڑا گناہ ہے تم کیوں جان زیتونوں کے لیے اپنا ایمان خراب کرتے ہو اس کے علاوہ جب علی واپس آئے گا اور مرتبہ ان کا منہ کھلا پائے گا تو وہ تمہارے متعلق کیا سوچے گا میری مانو تو اس کا خیال دل سے نکال دو اس کی بات سن کر تاجر اس وقت تو  خاموش ہوگیا



لیکن کھانا کھانے کے بعد جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو تاجر چراغ لے کر گودام میں داخل ہوا اس نے بمشکل علی کا مرتبان تلاش کیا اور جب اس کا منہ کھولا تو علم ہوا کے اوپر والے زیتون خراب ہوچکے تھے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کیا یہ سارے زیتون خراب ہو چکے ہیں یا نیچے والے ابھی ٹھیک ہیں اس نے مرتبان کو ہلا کر دیکھنا چاہا جو ہیں اس نے ایسا کیا اس کو اشرفیاں پھینکنے کی آواز سنائی دی وہ فورا سمجھ گیا کہ اس مرتبہ ان میں صرف اوپر ہی جا تو نہیں اور نیچے سونے کی اشرفیاں ہیں اوپر سے زیتون ہٹائے تو نیچے واقعی اشرفیاں نظر آیا اس نے فورا زیتون واپس مرتبہ ان کے اندر ڈالے اور اوپر سے اس کا موقع پہلے کی طرح بند کیا اور اپنے کمرے میں واپس آگیا اگلے چند روز تاجر اس کشمکش میں رہا کہ وہ علی کی ان اشرفیوں کو استعمال کریں یا نہیں اگر استعمال کر لے تو اس کا دوست علی واپس آجائے اور اپنا مرتبان واپس مانگے تو وہ کیا جواب دے گا  کافی دن  وہ اس کے متعلق سوچتا رہا شیطان اسے امانت میں خیانت کرنے پر اکساتا رہا اور اسے نیند نہیں ترکی بے سمجھاتا رہا



اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ علی نے تو مجھے اشرفیوں کے متعلق بتایا ہی نہیں صرف زیتون کا ذکر کیا تھا اس لیے وہ اشرفیوں کا مطالبہ نہیں کرسکتا یہ سوچ کر وہ تاجر اگلے روز بازار گیا اور وہاں سے کچھ زیتون خرید کر چپکے سے گودام میں گیا سارا مرتبان خالی کی اشرفیاں اپنے پاس رکھ لیں پرانے زیتون پھینک دیے اور پھر سارا مرتبہ اپنے خریدے گئے  زیتون سے بھر کر اس کا موہ سپ سابق بند کر دیا اور اس کو اسی جگہ واپس رکھ دیا جہاں علی رکھ کر گیا تھا تقریبا مہینہ گزرا ہوگا علی واپس بغداد پہنچ گیا اگلی ہی صبح وہ اپنے تاجر دوست کے ہاں پہنچا اسے دیکھا تاجر نقاب کر آ گیا اور دل ہی دل میں پریشان ہو گیا




مگر بظاہر اس کی واپسی پر اپنی خوشی کا اظہار کیا کچھ دیر ان دونوں نے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے رہے اور علی اپنی طویل سفر کی مختصر روداد سنانے کے بعد اپنے تاجر دوست سے کہنے لگا میرے دوست اب آپ برائے مہربانی میرا وہ زیتون کا مرتبہ 9اپس کر دو جو میں جاتے ہوئے تمہارے گودام میں رکھ گیا تھا تم نے کئی سال میری اس امانت کی حفاظت کی جس کے لیے میں تمہارا ممنون ہوں تاجر اس کی بات سن کر قدرے پریشان ہوا مگر اپنے منصوبے کے مطابق کہنے لگا میرے دوست تمہارا مرتبان بالکل محفوظ ہے یہ لو میرے گودام کی چابی اور جا کر وہیں سے اپنا مرتبہ اٹھالو جہاں تم خود جاتے ہوئے رکھ کر گئے تھے




علی خوشی خوشی تاجر کے گودام میں گیا اپنا مرتبان وہاں سے اٹھایا بھی اپنے دوست کو واپس کی اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سرائے میں واپس آ گیا جہاں وہ ٹھہرا ہوا تھا اپنے کمرے میں آ کر اس نے مرتبہ ان کا منہ کھولا اور اوپر سے کچھ زیتون ہٹا کر نیچے اشرفیوں کی تلاش میں ہاتھ ڈالا مگر جہاں تک ہاتھ گیا زیتون نہیں ملی اشرفیوں کا نام و نشان تک نہ تھا اس نے سارا مرتبہ ایک برتن میں الٹ گیا مگر وہ تو سارے زیادہ تو نہیں تھے ایک اشرفی بھی نہیں تھی یہ دیکھ کر وہ گھبرا گیا اور چند لمحے بت بنا اپنی جگہ بیٹھا رہا پھر چیف نے لگائے ناممکن ہے یہ ناممکن ہے جب وحواس ذرا بحال ہوئے تو علی الٹے پاؤں اپنے تاجر دوست کی طرف بھاگا میرے دوست مجھے اتنی جلدی واپس دیکھ کر پریشان تو ہوں گے اور یہ میں جانتا ہوں یہ مرتبہ میرا ہی ہے اور یہ اسی جگہ رکھا تھا جہاں میں رکھ کر گیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں صرف زیتون نہیں تھے اس کے نیچے میں نے 1000 سونے کی اشرفیاں رکھی تھی جو اب مجھے وہاں نہیں ملی ہو سکتا ہے تم نے اپنے کاروبار میں کسی وجہ سے استعمال کرلیا ہو اگر ایسا ہوا تو برائے مہربانی مجھے میری وہ اشرفیاں واپس کر دو



تاجر پہلے ہی جی نتا تھا کہ علی مرتبہ ان کھلنے کے بعد اس کے پاس یہ شکایت ضرور لے کر آئے گا اور اس نے اس کا جواب بھی سوچ رکھا تھا لہذا وہ کہنے لگا میرے دوست علی سات سال پہلے جب تم اپنا مرتبان میرے پاس دے کر آئے تو کیا میں نے اسے چھوا تھا کیا میں نے تمہیں اپنے گودام کی چابی نہیں دی تھی کہ تم خود ہی اسے اپنی مرضی کی جگہ پر رکھ دو اور کیا واپسی پر تم نے اسے وہیں سے نہیں اٹھایا تھا اور کیا اس کام ویسا ہی بند نہیں تھا جیسا تم اپنے ہاتھوں سے کر گئے تھے اور اب تم ایک ہزار سونے کی اشرفیوں کا مطالبہ کر رہے ہو کیا تم نے مجھے پہلے بتایا تھا کہ اس مرتبہ ان میں سونے کی اشرفیاں ہیں میں تو خدا کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ تم نے ہیرے اور موتی یو کا مطالبہ نہیں کر دیا




یہ تمہارے لئے آسان ہے کہ تم مجھ پر الزام لگا دو اب مجھے پریشان مت کرو اور نہ ہی میری بےعزتی کرو اس طرح تم میری نیک نامی اور کاروباری ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہو اب چلے جاؤ یہاں سے تاجر نے یہ الفاظ اتنے غصے میں چیختے ہوئے ادا کیے کہ آس پاس لوگ اکٹھے ہو گئے اور تماشا دیکھنے لگ گئے علی نے اپنے ساتھ ہونے والی بے انصافی اور امانت میں خیانت کا سب کو بتایا جو تاجر نے کی تھی مگر تاجر بھی  غصے سے چیختے ہوئے اس الزام کی نفی کرتا رہا جب تاجر نے علی کی ایک نہ چلنے دی تو وہ کوئی چارہ نہ پا کر سیدھا عدالت پہنچا اور قاضی صاحب کے روبرو سارا معاملہ رکھ دیا قاضی صاحب نے اس وقت تاجر کو عدالت میں طلب کرلیا اس کے سامنے علی نے قاضی صاحب کو سارا ماجرہ سنایا کہ اس تاجر نے اس کی ایک ہزار سونے کی اشرفیاں چرا دی ہیں جو اس کے پاس امانت رکھوائی گیا تھا تاجر نے یہاں بھی اس الزام کو ماننے سے انکار کر دیا کازی نے علی سے پوچھا کیا تمہارے پاس اس بات کا کوئی گواہ ہے علی نے جواب دیا کہ اسے اپنے تاج دوست پر اعتماد تھا اس لیے اس نے یہ احتیاط نہیں کی تھی اور اسے ایماندار اور دو سمجھ کر امانت حوالے کر دی تھی




تاجر بولا یہ سچ ہے کہ الیاس کے گودام میں ایک مرتبہ ان رکھ کر گیا تھا مگر اس نے کبھی یہ دیکھنے کی جستجو نہیں کی کہ اس میں کیا غیر وہ صرف یہ جانتا تھا کہ اس مرتبہ ان کے اندر زیتون ہے ابالیں اس کو عدالت میں گھسیٹ کر اس کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے اس کے بعد قاضی صاحب کے کہنے پر اس نے حلف اٹھایا کہ اس نے علی کے سونے کی اشرفیاں نہیں دی اور نہ ہی ان کے متعلق کچھ جانتا ہے قاضی صاحب کا اس حلف قبول کیا اور تاجر کی بات کا یقین کرتے ہوئے گواہوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے تاجر کو بے گناہ قرار دے کر اسے گھر جانے کی اجازت دے دی قاضی صاحب کے اس فیصلے اور اپنی اتنی بڑی نقصان پر علی بہت زیادہ پریشان تھا مگر اس نے ہارنہ مانی وہ عدالت سے نکلا اور ساری رات اس مسئلے پر سوچتا رہا




صبح ہونے سے پہلے ہی اس نے ایک فیصلہ کر لیا اور اگلے دن صبح سویرے وہ بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا اور اس کے سامنے سارا  اپنا سارا معاملہ بیان کردیا بادشاہ نے علی کو دوسرے روز صبح دربار میں دوبارہ حاضر ہونے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اس تاجر کو بھی طلب کرنے کا حکم جاری کردیا اگلے روز جب شاہی حکم کے مطابق علی اور تاجر دربار شاہی میں خلیفہ کے سامنے پیش ہوئے خلیفہ نے علی اور تاجر دونوں کی بات غور سے سنی تاجر نے حسب معمول اپنا بے گناہ ہونے کا حلف پیش کرنا چاہیے اور قسم اٹھانے لگا کے وہ سچا ہے تو بادشاہ نے کہا حلف اٹھانے میں اتنی جلدی مت کرو مناسب ہے کہ پہلے ہم اس مرتبہ ان کو اندر سے دیکھ لیں یہ الفاظ سن کر علی آگے بڑھا اس نے وہ مرتبان بادشاہ کے قدموں میں رکھ دیا بادشاہ نے تاجر سے پوچھا کیا یہ وہی مرتبہ ہے جو علی نے سات سال پہلے تمہارے گودام میں امانت رکھوایا تھا




تاجر نے اقرار میں سر ہلا دیا بادشان مرتبہ ان کے اندر جھانکا ایک زیتون اٹھایا اور اس کو جھک کر دیکھا اس کے بعد کسانوں کو طلب کیا گیا انہوں نے بھی زیتون کا معائنہ کیا اور تصدیقی کے یہ بالکل تازہ اور درست حالت میں ہے اور زیادہ پرانے نہیں ہیں بادشاہ نے کہا مگر علی تو کہتا ہے کہ یہ دونوں سات سال پہلے اس نے اس مرتبہ میں رکھے تھے اس کا مطلب ہے اس مرتبہ ان کو یقین نہ کھولا گیا ہے  تاج نے جب دیکھا کہ کسانوں کا بیان اس کے خلاف ہے تو اپنی جان بچانے کے لیے اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا اور وہ جگہ بتا دیں جہاں اس نے علی کے سونے کی ایک آزار اشرفیاں چھپائی تھی وہ رقم فورا تلاش کرکے علی کے حوالے کر دی گئی بادشاہ نے تاجر سے کہا تم نے یہ اچھا  یہ اچھا کیا کہ اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے اور رقم واپس کر دی ہے ورنہ اس جرم میں تمہیں دس سال قید کی سزا ہونے کے ساتھ ساتھ سو کوڑے بھی مارے جاتے علی خلیفہ اور اس کے انصاف کو دعائیں دیتا دربار سے رخصت ہوگیا





Post a Comment

1 Comments