لکڑہارے کے بیٹے کی سبق آموز اور دلچسپ کہانی

 شرفو کی کہانی وہ ایک لکڑہارا تھا ساری عمر اس نے جنگلوں میں جا کر لکڑیاں کاٹ کر انھیں بیچا تھا اور اپنی اس محنت سے جنگل سے کچھ دور ایک چھوٹا سا مکان بنوایا تھا جس میں وہ اور اس کی بیوی اور جوان بیٹا رہتا تھا بیوی کا نام نادی تھا -اور بیٹے کا نام شرفو تینوں آرام اور سکون سے زندگی بسر کر رہے تھے گھر کی گزر بسر لکڑہارے کی آمدنی سے ہوتی تھی بیوی ہانڈی روٹی کرتی تھی اور بیٹا گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کرتا تھا لکڑہارا بوڑھا ہوگیا تھا بڑھاپے کی وجہ سے اس میں پہلے جیسی طاقت نہیں رہی تھی



وہ آئے دن ہی بیمار رہتا تھا مگر اسے کوئی ایسی پریشانی نہیں تھی سمجھتا تھا کہ میرا اشرف اب بچہ نہیں رہا آسانی سے گھر کی ذمہ داریاں سنبھال سکتا ہے- شرفو کی ماں کا بھی یہی خیال تھا اس لئے اسے بھی کسی قسم کی فکر نہیں تھی ایک سوال پر ہارا جاگا تو اس نے محسوس کیا کہ بڑا کمزور ہو گیا ہے -جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹنا اس کے لئے مشکل ہو رہا ہے اس کا بیٹا صبح ناشتے سے فارغ ہو چکا تھا اور اس بات پر حیران ہو رہا تھا کہ اس کا باپ معمول کے مطابق صبح سویرے گھر سے نکلا کیوں نہیں چارپائی پر لیٹا کیوں ہے لکڑہارا سمجھ گیا کہ اس کا بیٹا کیا سوچ رہا ہے -اس نے شرفو کو اشارے سے اپنے پاس بلایا اور پیار سے بولا شرفو بیٹا جی ابا جی دیکھو بیٹا اب اپنے گھر کی ذمہ داری تمھیں سنبھالنا ہو گی میں بوڑھا ہو گیا ہوں بیمار بھی ہوں


تو فرمائیے اباجی شرفو نے پوچھا بیٹا جو کام میں نے ساری عمر کیا ہے وہ اب تم کرو لکڑیاں کاٹنا آسان کام نہیں ہے مگر تم ہمت والے اور طاقتور ہو شروع میں یہ کام ذرا مشکل لگے گا پھر رفتہ رفتہ آسان ہو جائے گا میں تمہیں برابر مشورے دیتا رہوں گا -جو تمہارے لئے مفید ہو گئے سمجھ گئے بیٹا  شرفو نے ہاں میں سر ہلا دیا شاباش بیٹا مجھے تم سے یہی امید کی شوق سے کام کرو گے تو ڈھیر سارے پیسے کما لو گے شرفو کی ماں کے پاس ہی کھڑی یہ گفتگو سن رہی تھی شرکوں کے باپ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا نادی  میرا کلہاڑا لے آؤ نادی اندر سے کلہاڑا لے آئی- بیٹا یہ ہمارا ورثہ ہے اس کی حفاظت کرتے رہنا کیوں کہ اس کے ذریعے سے ہی تو ایک لکڑہارا درخت سے لکڑیاں کا ٹتا ہے یہ کہتے ہیں لکڑہارا چارپائی سے اٹھ بیٹھا اس نے کلہاڑا اٹھا کر شرفو کے کندھے پر رکھ دیا



اور اس سے بتانے لگا کہ اچھے پیڑ کہاں کہاں ہیں کتنی لکڑیاں ہر روز کاٹنی ہوگی اور انہیں کس طرح دعا بنا کر سر پر اٹھا کر شہر میں وہاں لے جانا ہو گا جس جگہ لکڑیاں بیچی جاتی ہیں لکڑہارے نے اسے اس جگہ کا نام بھی بتا دیا شرفو بڑے شوق سے باپ کی باتیں سن رہا تھا اس کا یہ شوق دیکھ کر اس کے ماں باپ دونوں بہت خوش تھے- جب لکڑہارے نے وہ سب کچھ بتا دیا جو وہ اپنے بیٹے کو بتانا چاہتا تھا تو کہنے لگا لو شرفو  آج سے کام شروع کر دو شرفو کی ماں ٹھنڈی رو دعائیں دیں اور شرفو کلہاڑا کندھے سے لگائے اپنے گھر سے نکل گیا جنگل کا رستہ ہے وہ اچھی طرح جانتا تھا ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ وہ باپ کی بتائی ہوئی جگہ پہنچ گیا



بیسیوں  پیڑ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک قطار میں اس کے باپ نے بتایا تھا کہ پہلے درخت کی شاخیں جھکی ہوئی ہیں ان شاخوں کو کاٹنا آسان ہے پہلے یہی شاخیں کاٹنا وہ ایک لمبی جس کی ہوئی شاخ کو کاٹنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر شاخ کے اس مقام پر پڑی جہاں سے یہ درخت سے پھوٹی تھی -اس نے دیکھا کہ وہاں چڑیوں نے ایک گھونسلا بنا رکھا ہے اس نے دو تین بچے بھی اس گھونسلے میں دیکھ لیے تھے یہ گھونسلہ دیکھ کر فورا اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھا کے اگر میں نے یہ شاہ کاٹی تو کیا گھونسلہ تباہ نہیں ہو جائے گا



اس نے اپنے سوال کا خود جواب دیا بالکل تباہ ہو جائے گا اور وہ بچے جو اس گھونسلے میں پرورش آ رہے ہیں نیچے گر کر مر جائیں گے اور ان کے ماں باپ کو بڑا دکھ ہوگا اس نے کلہاڑا اس شاخ کو کاٹنے کے لیے اٹھایا ہی تھا کہ یکایک اس کا ہاتھ رک گیا وہ آہستہ سے بولا نہیں میں یہ ظلم نہیں کر سکتا اور وہ اس پیڑ کے سائے میں بیٹھ گیا کی باتیں اس کے ذہن میں آگئی میرے باپ نے لکڑیاں کاٹنے کے لئے بھیجا ہے اس کا حکم مانتا ہوں تو وہ خوش ہو گا میں لکڑیاں بیچ کر پیسے کما لوں گا لیکن یہ ان چڑیوں پر ظلم ہوگا جنہوں نے یہاں گھونسلہ بنا رکھا ہے وہ سوچتا رہا کے ماباپ کا حکم مانے یا نا بے چاری چڑیوں کے گھونسلے کو سلامت رکھے




اس کی نظر بار بار گھونسلے پر جم جاتی تھی آخر وہ اٹھ بیٹھا اور پکے ارادے کے ساتھ واپس گھر روانہ ہو گیا اس کا باپ گھر کے باہر چارپائی پر لیٹا اس کا انتظار کر رہا تھا شرفو کو دیکھا تو بولا شرفو بیٹا جلدی آ گئے ہو بڑی جلدی لکڑیاں بک گئی ہیں نہیں ابا جان کیا بات ہے اباجان میں درخت پر کلہاڑا نہیں چلا سکا کیوں لکڑہارا حیران ہو کر بولا شرفو نے جو کچھ دیکھا تھا وہ باپ کو بتا دیا اور اس سے پہلے کہ اس کا باپ کچھ کہے اس کی ماں نے کہا بیٹا اس درخت پر چڑیا نے گھونسلہ بنا رکھا تھا تو اسے چھوڑ کر دوسرے درخت کی شاخیں کاٹ لیتے شرفو نے جواب دیا ماں وہاں بھی پرندوں نے گھونسلہ بنا رکھا تھا کیسے کاٹتا اسے


لکڑہارا اپنے بیٹے کی بات سن کر بہت فاھوا اور غصے سے کہنے لگا او احمد لکڑہارا یہ نہیں دیکھتا کہ درخت پر پرندوں کا گھونسلہ ہے یا نہیں اس سے لکڑیاں کاٹ کر بیچ نئی ہوتی ہیں تم نے بڑی احمقانہ حرکت کی ہے -میں نہیں سمجھتا تم اتنے پاگل ہو گے لکڑہارا غصے میں جانے اور کیا کہہ دیتا اس کی بیوی نے سرگوشی میں سمجھایا آخر بچا ہے بس اور کچھ نہ کہو دو تین دن ٹھہر جاؤ اپنی ذمہ داری سنبھال لے گا دو دن بیت گئے تو پھر باپ نے بیٹے کو ایک اور مقام کا پتا بتایا اور تاکید کی  خبردار درخت پر ضرب لگانے سے پہلے اوپر نہیں دیکھنا




شرفو نے عہد کر لیا وہ پہلے کی طرح اوپر نہیں دیکھے گا اور باپ کے بتائے ہوئے مقام پر چلا گیا اسے اپنا وعدہ یاد تھا چنانچہ پہلے پیڑ کے پاس پہنچ کر اس نے اوپر نہیں دیکھا وہ نیچے دیکھتے ہوئے کلہاڑا مارنے لگا اس کی نظر پیڑ کے نیچے اس جنگلی پھل پر پڑی جس سے بعض لوگ ہانڈی میں پکا کر کھاتے ہیں ایک سوال ذہن میں ابھر آیا اس پیڑ پر یہ پھل لگتا ہے میں اسے کیوں نقصان پہنچاؤ کیا اس کی شاخیں کاٹنے سے اس پل کا کچھ حصہ ضائع نہیں ہو جائے گا کیا یہ ان لوگوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی جو اسے ہانڈی میں پکا کر کھاتے ہیں وہ دیر تک اس درخت کے نیچے بیٹھا رہا اور سوچتا رہا



اس روز جب لکڑہارے نے اپنے بیٹے کو دیر سے آتے دیکھا تو اسے یقین ہو گیا کہ اب یہ ضرور لکڑیاں بیچ کر پیسے لایا ہے وہ خوش ہو کر بولا آج میرا بیٹا کافی پیسے لے کر آیا ہے ہے نا کیوں  شرفو نہیں ابا جان میں کوئی پیسہ نہیں لایا پھر  اس نے باپ کو درخت نا کاٹنے کی وجہ بتا دی بیٹے کی بات سنتی بھی لکڑہارے کے تن بدن میں آگ لگ گئی تو کچھ نہیں کر سکے گا تجھے لکڑیاں کاٹ کر بیچنے کے لیے بھیجا تھا پیڑ کا پھل دیکھنے کے لیے نہیں میں کیا کرتا ابا جان آپ جانتے نہیں لوگ اس پھل کو پکا کر کھاتے ہیں



باپ گرجا تو تمہیں کیا لوگوں کو لپکا کر کھاتے ہیں تم تو نہیں ابا جی وہ لوگ بھی تو ہمارے جیسے ہیں نا لکڑہارے کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا کہ اس کی بیوی نے پھر اسے سمجھایا بس اب اور کچھ نہ کہو مجھے امید ہے شرم کو سیدھے راستے پر آ جائے گا لکڑہارا بولا اب کے میں برداشت کر لیتا ہوں آئندہ اس نے ایسی بیہودہ حرکت کی تو میں اسے گھر سے نکال دوں گا -چند دن گزر گئے لکڑہارے نے اس مرتبہ پرانے درختوں کا پتا بتا کر کہا خبردار اب کے کوئی بہانہ نہ بنانا پیسے لے کر گھر آنا شہر کو جنگل میں گیا اس نے پرانے درخت دیکھے بہت بوڑھے ہو چکے تھے انہیں دیکھ کر وہ سوچنے لگا انہوں نے نے برسوں تک مسافروں کے لئے ٹھنڈے سائے مہیا کیے ہیں تھکے ہوئے لوگ ان کے نیچے بیٹھ کر سکون حاصل کرتے رہے ہیں انہیں کاٹنا انسان کے ان موسموں کا احسان ماننے کے بجائے ان پر الٹا ظلم و نہیں ہوگا




اور وہ واپس آنے لگا راستے میں ایک نہر پڑتی تھی اس کے پل پر سے گزرتے ہوئے اس نے کلھاڑا نیچے پانی میں پھینک دیا کے یہ نہ ہو گا اور نہ مجھے لکڑیاں کاٹنے کے لیے کہا جائے گا شہر میں ایک بازار سے گزرتے ہوئے اس نے کی دکانوں کو دیکھ کر سوچا یہ اچھا کام ہے میں بھی ابا جان سے کہہ کر بازار میں ایک دکان کھولوں گا اس روز وہ شام کے قریب اپنے گھر پہنچا لکڑہارے کو پورا یقین تھا کہ اس کا بیٹا ضرور لکڑیاں بیچ کر آیا ہے -تو آج تم نے کیا کام کیا باپ کا یہ سن کر شرفو بولا ابا جان درختوں میں نہیں کاٹ سکا وہ ساری عمر مسافروں کو ٹھنڈے سائیں دیتے رہے میں نے یہ سوچ لیا ہے کہ میں بازار میں دکان پر بیٹھا کروں گا


بیٹے کے منہ سے جیسے ہی یہ لفظ نکلے  لکڑہارا اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا اور اسے اسی وقت گھر سے نکال دیا ماں نے دخل دینا چاہا تو لکڑہارے نے اسے بھی جھڑک دیا بس بس اب تم ایک لفظ نہیں کہوں گی شرفو گھر سے نکل کر چلنے لگا اس کا کوئی ٹھکانہ تو تھا نہیں کہا جا سکتا تھا چلتا گیا چلتا گیا یہاں تک کہ اس قدر تھک گیا کہ اس کے لئے ایک قدم اٹھانا بھی دشوار ہو گیا تھا -قریب ہی ایک بڑی شاندار حویلی تھی وہ اس کے دروازے پر گرپڑا اور بے ہوش ہوگیا ادھر لگ رہا اور اس کی بیوی اپنے بیٹے کی جدائی میں تڑپ رہے تھے لکڑہارا بری طرح پچھتا رہا تھا کہ اس نے بیٹے کو گھر سے کیوں نکال دیا تھا ایک دن دونوں بیٹے کی باتیں یاد کر کے رو رہے تھے



کہ ان کے مکان کے آگے ایک بگھی رکی  اس میں سے ایک شخص اترا اور لکڑہارے کے دروازے پر دستک دینے لگا کیوں جناب کیا بات ہے لکڑہارے نے دروازہ کھول کر اس آدمی سے پوچھا آپ کو اور آپ کی بیوی کو نادر خاں نے بلایا ہے نادر خان کون   لکڑہارے نے یہ نام پہلی بار سنا تھا  آپ نے  نادر خان کا نام نہیں سنا جی نہیں وہ بڑے آدمی ہیں سب ان کی عزت کرتے ہیں مہربانی کر کے بگھی میں بیٹھ جائیں لکڑہارا اور اس کی بیوی بگھی میں بیٹھ گئے بیٹھ گیا انہیں ایک بڑے خوب صورت اور شاندار باغ میں لے آئی





وہ باغ کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی ابا جان اماں ارے شرفو لکڑہارا اور اس کی بیوی اپنے بیٹے کو دیکھ کر حیران ہو گئے شرفو نے علی کی قسم کا لباس پہن رکھا تھا اور بہت خوش لگتا تھا تم یہاں کہاں شرفو کی ماں نے پوچھا شرفو کہنے لگا اماں اس شام جب ابا جان نے مجھے گھر سے نکالا تھا تو میں تھک کر ایک حویلی کے دروازے پر گر پڑا اس حویلی کے مالک نادرخان ہے جنہوں نے یہ دیکھ کر مجھے درختوں اور پرندوں سے بڑی محبت ہے آپ نے اس باغ کا مالی بنادیا ہے وہ ہیں میرے محسن




نادر خان قریب آ گئے اور کہنے لگے واقعی شرفو کی اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا تھا کہاں سے درختوں کا بڑا خیال ہے درختوں سے محبت کرتا ہے میں نے اسے اپنے باغ کے درختوں کی رکھوالی کا کام سپرد کر دیا ہے وہ یہاں نئے نئے پودے لگائے گا اور ان کی حفاظت کرے گا اس نے درختوں سے محبت کی ہے اور درختوں نے اس محبت کا یہ بدلہ دیا ہے شرفو کے اصرار پر اس کے ماں باپ بھی وہی خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگے


Post a Comment

0 Comments