میجر عزیز بھٹی شہید یہ اگست 1965 کے آخری دنوں کی بات ہے

 رجمنٹل ہیڈ کوارٹر سے میجر صاحب کو ایک حکم نامہ ملا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ہنگامی صورت حال کے پیش نظر آپ کی چھٹیاں منسوخ کی جاتی ہیں اس لیے آپ فورا ڈیوٹی پر حاضر ہو رات کے کھانے کے دوران ملک کی ہنگامی صورتحال اور چھٹیاں منسوخ ہونے کا ذکر چلا تو میجر صاحب کے بڑے بیٹے نے پوچھا ابا جان کیا اب لڑائی ہوگی ہاں بیٹا میجر صاحب نے کہا ہو بھی سکتی ہے حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں ابو اگرجنگ ہوئ تو آپ خوب بہادری سے لڑیں اور بزدلی نہ دکھائیں



ٹھیک ہے بیٹا اگر جنگ ہوئی اور میں بہادری سے لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں تو تم بھی آنسو نہیں بہا نا یہ کہتے ہوئے میجر صاحب کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک اور اپنے وطن کے لیے کچھ کر دکھانے کا عزم اور جذبہ تھا انہوں نے اپنے بیٹے کا کندھا تھپتھپاتے  ہوئے کہا بیٹا بہادر باپ لڑتے ہیں اور ان کے بیٹے اپنی ساری تعلیم پر توجہ صرف کرتے ہیں تاکہ وہ بڑے ہو کر بڑے کارنامے انجام دیے تم بھی اپنی تعلیم کا پورا خیال رکھنا محاذ جنگ پر جانے سے پہلے ایک باپ اور بیٹے کے درمیان بات چیت تھی اس بات پر وہ بیٹا ہی نہیں بلکہ پوری قوم ہمیشہ فخر کرتی رہے گی



جس نے بڑی بہادری سے اپنے وطن کی حفاظت کی اور پھر اسی عظیم مقصد کے لیے شہید ہوگیا قوم کے اس بہادر سپاہی کا نام میجر عزیز بھٹی شہید ہے میجر عزیز بھٹی کا تعلق گجرات سے تھا وہ چھ اگست انیس سو اٹھائیس کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے انہیں گھر میں پیار سے راجہ کہا جاتا تھا بچپن میں انہیں فٹ بال کرکٹ ہا کی اور ٹینس سے بہت دلچسپی تھی پاک فوج میں آنے کے بعد ان کا شمار ذہین اور پھرتیلے افسران میں ہوتا تھا انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز انیس سو سینتالیس میں برٹش انڈین آرمی میں بطور ائیرمین سے کیا انیس سو اڑتالیس میں پاک فوج میں ملازمت کے لئے درخواست دیں انیس سو پچاس میں انہوں نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور پنجاب رجمنٹ کا حصہ بن گئے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت کی تکمیل پر انہوں نے ایک غیر معمولی کارنامہ بھی انجام دیا اور وہ تھا بیک وقت شمشیر اور نارمن گولڈ میڈل حاصل کرنا  انہوں نے یہ اعزازات اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے وصول کئے 1965 میں آپ اعلی فوجی تربیت کے لیے کینیڈا چلے گئے



میجر عزیز بھٹی نے انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں لاہور کو کچھ اس طرح سے ناقابل تسخیر بنایا کہ دشمن کے سارے خواب ملیامیٹ ہو گئے 6 ستمبر کی صبح پوری قوم کے لئے حیران کن اور تکلیف دہ تھی کہ رات کے اندھیرے میں دشمن نے بزدلی سے پاکستان پر حملہ کر دیا لاہور میں باٹاپور بیدیاں قصور اور پھر بھی آر بی نہر بھی محاذ جنگ کا حصہ بنے میجر عزیز بھٹی 1965 میں لاہور سیکٹر کے برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان سنبھالے ہوئے تھے اس کمپنی کی دو پلاٹون بھی آر بی نہر کے کنارے متعین تھی


دشمن کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے پیش نظر میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر موجود پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ایک ایسے وقت میں جب دشمن آپ نے تو خانے اور ٹینکوں کی مدد سے پوری شدت سے تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا  آگے بڑھنے کے لیے آہنی عزم اور حوصلے کی ضرورت تھی میجر عزیز بھٹی اور ان کے ساتھیوں نے عزم و حوصلے اور بہادری کے ساتھ لڑائی جاری رکھیں اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے دشمن نے 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی شب اس سیکٹر پر بھر پور حملے کے لیے اپنی پوری بٹالین جھونک دی ایسی صورتحال میں پاک فوج کے افسران نے میجر عزیز بھٹی کو نہر کے دوسرے کنارے پر واپس آنے کا حکم دیا چنانچہ جب آپ راستہ بناتے ہوئے دوسرے کنارے پر پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کر چکا تھا اس صورتحال میں میجر عزیز بھٹی نے نہایت عقلمندی اور حوصلے سے اپنے جوانوں کی قیادت کی اور دشمن پر بھرپور حملہ کر کے اسے اس علاقے سے نکال باہر کیا اور اس وقت تک دشمن کے سامنے فولادی دیوار بنے رہے جب تک کہ ان کے باقی تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ جائیں



انہوں نے دوبارہ اپنے جوانوں کو منظم کیا اس دوران نہ صرف انہوں نے دشمن کی مزید پیش قدمی کو روکے رکھا بلکہ ان کی بھرپور فائرنگ کا جواب بھی دیتے رہے میجرعزیزبھٹی مسلسل چھ دن اور چھ راتیں دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند دے رہے 12 ستمبر کی صبح انھوں نے وضو کے بعد نماز ادا کی اور ان کے ساتھی نے کہا میں نہر سے پانی لا دیتا ہوں آپ غسل کرلیں میجر عزیز بھٹی کے آپ نے جو ان سے محبت دیکھیے انہوں نے کہا نہیں نہر سے پانی لانا خطرناک ہے بس اسی پانی سے سر دھلا دیں چنانچہ سردا اور کئی دنوں کے بعد بالوں میں کنگھی کی انہوں نے صبح کی چائے صوبیدار غلام محمد کے ساتھ 3 صوبیدار غلام محمد خاں کی لکیروں سے واقفیت رکھتے تھے میجر عزیز بھٹی نے آپ سے پوچھا میرے ہاتھ میں شہادت کی لکیر ہے یا نہیں غلام محمد نے ان کا ہاتھ دیکھا اور کچھ دیر بعد کہا ہے شہادت کی لکیر تو ہے مگر اندازہ نہیں ہو رہا کہ کب شہادت ہو گئی اس پر میجر عزیز بھٹی نے صوبیدار غلام محمد سے کہا آپ کو اندازہ نہیں ہو رہا مگر مجھے لگتا ہے کہ میری شہادت بہت قریب ہے ان کی اس بات سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ غیر شعوری طور پر کسی طویل سفر کے لئے تیاری کر رہے تھے



اس کے بعد انہوں نے اپنے اردلی  سے نئ وردی لانے کا کہا جب وہ واپس آیا تو وہ بھی دیکھ کر بولے یہ میری وردی تو نہیں ہے اردلی نے کہا اصل آپ کی وردی لانے کے لیے فیلڈ ہیڈ کوارٹر گیا تھا مگر وردی نہیں ملی وہاں ایک افسر نے اپنی وردی آپ کے لیے بھیج دی ہے میجر عزیز بھٹی ہلکا سا مسکرائی اور بولے یہودی واپس لے جاؤ وردی اور کفن اپنا اپنا ہی اچھا لگتا ہے تھوڑی دیر بعد دشمن کی نقل وحمل کی بہتر طریقے سے جائزہ لینے کے لیے وہ نہر کے اوپر آئے اور وہاں دوربین سے مشاہدہ کرنے لگے حوالدار فیض علی پیچھے موجود تھے



دشمن کی طرف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا انہوں نے خطرناک صورتحال کے پیش نظر میجرعزیزبھٹی سے کہا سر آپ نیچے آجائے  میجر عزیز بھٹی نے کہا نیچے سے جائزہ ہی نہیں ہو سکتا یہ اختر حضرو رہے مگر زندگی تو موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر وطن کی حفاظت کے لئے شہادت مقدر میں ہے تو میری خوش قسمتی ہے اتنے میں برکی سے لہر کی طرف چندٹینک پڑھتے نظر آئے ان ٹینکوں کے پیچھے پیدل فوج بھی تھی میجر عزیز بھٹی نے فائرنگ کا حکم دیا اور مسلسل دوربین سے دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لیتے رہے اسی دوران جب اپنے جوانوں کو  فائرنگ کا حکم دے رہے تھے دشمن کے ٹینک سے فائر کیا ہوا ایک گولہ انہیں الگ اور وہ منہ کے بل زمین پر گری ساتھی ان کی طرف بڑھے مگر وہ جام شہادت نوش کر چکے تھے  قوم کے اس بہادر بیٹے نے نا صرف اپنے کہنے کے مطابق دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا



بلکہ بہادری سے لڑتا ہوا جامی شہادت بھی نوش کرگیا اور میجر عزیز بھٹی کا نام تاریخ میں زندہ جاوید ہو گیا حکومت پاکستان نے اس عظیم قربانیوں پر انہیں ملک کا اعلی ترین اعزاز نشان حیدر دیا



Post a Comment

0 Comments