رجمنٹل ہیڈ کوارٹر سے میجر صاحب کو ایک حکم نامہ ملا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ہنگامی صورت حال کے پیش نظر آپ کی چھٹیاں منسوخ کی جاتی ہیں اس لیے آپ فورا ڈیوٹی پر حاضر ہو رات کے کھانے کے دوران ملک کی ہنگامی صورتحال اور چھٹیاں منسوخ ہونے کا ذکر چلا تو میجر صاحب کے بڑے بیٹے نے پوچھا ابا جان کیا اب لڑائی ہوگی ہاں بیٹا میجر صاحب نے کہا ہو بھی سکتی ہے حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں ابو اگرجنگ ہوئ تو آپ خوب بہادری سے لڑیں اور بزدلی نہ دکھائیں
ٹھیک ہے بیٹا اگر جنگ ہوئی اور میں بہادری سے لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں تو تم بھی آنسو نہیں بہا نا یہ کہتے ہوئے میجر صاحب کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک اور اپنے وطن کے لیے کچھ کر دکھانے کا عزم اور جذبہ تھا انہوں نے اپنے بیٹے کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا بیٹا بہادر باپ لڑتے ہیں اور ان کے بیٹے اپنی ساری تعلیم پر توجہ صرف کرتے ہیں تاکہ وہ بڑے ہو کر بڑے کارنامے انجام دیے تم بھی اپنی تعلیم کا پورا خیال رکھنا محاذ جنگ پر جانے سے پہلے ایک باپ اور بیٹے کے درمیان بات چیت تھی اس بات پر وہ بیٹا ہی نہیں بلکہ پوری قوم ہمیشہ فخر کرتی رہے گی
جس نے بڑی بہادری سے اپنے وطن کی حفاظت کی اور پھر اسی عظیم مقصد کے لیے شہید ہوگیا قوم کے اس بہادر سپاہی کا نام میجر عزیز بھٹی شہید ہے میجر عزیز بھٹی کا تعلق گجرات سے تھا وہ چھ اگست انیس سو اٹھائیس کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے انہیں گھر میں پیار سے راجہ کہا جاتا تھا بچپن میں انہیں فٹ بال کرکٹ ہا کی اور ٹینس سے بہت دلچسپی تھی پاک فوج میں آنے کے بعد ان کا شمار ذہین اور پھرتیلے افسران میں ہوتا تھا انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز انیس سو سینتالیس میں برٹش انڈین آرمی میں بطور ائیرمین سے کیا انیس سو اڑتالیس میں پاک فوج میں ملازمت کے لئے درخواست دیں انیس سو پچاس میں انہوں نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور پنجاب رجمنٹ کا حصہ بن گئے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت کی تکمیل پر انہوں نے ایک غیر معمولی کارنامہ بھی انجام دیا اور وہ تھا بیک وقت شمشیر اور نارمن گولڈ میڈل حاصل کرنا انہوں نے یہ اعزازات اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے وصول کئے 1965 میں آپ اعلی فوجی تربیت کے لیے کینیڈا چلے گئے
میجر عزیز بھٹی نے انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں لاہور کو کچھ اس طرح سے ناقابل تسخیر بنایا کہ دشمن کے سارے خواب ملیامیٹ ہو گئے 6 ستمبر کی صبح پوری قوم کے لئے حیران کن اور تکلیف دہ تھی کہ رات کے اندھیرے میں دشمن نے بزدلی سے پاکستان پر حملہ کر دیا لاہور میں باٹاپور بیدیاں قصور اور پھر بھی آر بی نہر بھی محاذ جنگ کا حصہ بنے میجر عزیز بھٹی 1965 میں لاہور سیکٹر کے برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان سنبھالے ہوئے تھے اس کمپنی کی دو پلاٹون بھی آر بی نہر کے کنارے متعین تھی
دشمن کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے پیش نظر میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر موجود پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ایک ایسے وقت میں جب دشمن آپ نے تو خانے اور ٹینکوں کی مدد سے پوری شدت سے تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا آگے بڑھنے کے لیے آہنی عزم اور حوصلے کی ضرورت تھی میجر عزیز بھٹی اور ان کے ساتھیوں نے عزم و حوصلے اور بہادری کے ساتھ لڑائی جاری رکھیں اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے دشمن نے 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی شب اس سیکٹر پر بھر پور حملے کے لیے اپنی پوری بٹالین جھونک دی ایسی صورتحال میں پاک فوج کے افسران نے میجر عزیز بھٹی کو نہر کے دوسرے کنارے پر واپس آنے کا حکم دیا چنانچہ جب آپ راستہ بناتے ہوئے دوسرے کنارے پر پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کر چکا تھا اس صورتحال میں میجر عزیز بھٹی نے نہایت عقلمندی اور حوصلے سے اپنے جوانوں کی قیادت کی اور دشمن پر بھرپور حملہ کر کے اسے اس علاقے سے نکال باہر کیا اور اس وقت تک دشمن کے سامنے فولادی دیوار بنے رہے جب تک کہ ان کے باقی تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ جائیں
انہوں نے دوبارہ اپنے جوانوں کو منظم کیا اس دوران نہ صرف انہوں نے دشمن کی مزید پیش قدمی کو روکے رکھا بلکہ ان کی بھرپور فائرنگ کا جواب بھی دیتے رہے میجرعزیزبھٹی مسلسل چھ دن اور چھ راتیں دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند دے رہے 12 ستمبر کی صبح انھوں نے وضو کے بعد نماز ادا کی اور ان کے ساتھی نے کہا میں نہر سے پانی لا دیتا ہوں آپ غسل کرلیں میجر عزیز بھٹی کے آپ نے جو ان سے محبت دیکھیے انہوں نے کہا نہیں نہر سے پانی لانا خطرناک ہے بس اسی پانی سے سر دھلا دیں چنانچہ سردا اور کئی دنوں کے بعد بالوں میں کنگھی کی انہوں نے صبح کی چائے صوبیدار غلام محمد کے ساتھ 3 صوبیدار غلام محمد خاں کی لکیروں سے واقفیت رکھتے تھے میجر عزیز بھٹی نے آپ سے پوچھا میرے ہاتھ میں شہادت کی لکیر ہے یا نہیں غلام محمد نے ان کا ہاتھ دیکھا اور کچھ دیر بعد کہا ہے شہادت کی لکیر تو ہے مگر اندازہ نہیں ہو رہا کہ کب شہادت ہو گئی اس پر میجر عزیز بھٹی نے صوبیدار غلام محمد سے کہا آپ کو اندازہ نہیں ہو رہا مگر مجھے لگتا ہے کہ میری شہادت بہت قریب ہے ان کی اس بات سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ غیر شعوری طور پر کسی طویل سفر کے لئے تیاری کر رہے تھے
اس کے بعد انہوں نے اپنے اردلی سے نئ وردی لانے کا کہا جب وہ واپس آیا تو وہ بھی دیکھ کر بولے یہ میری وردی تو نہیں ہے اردلی نے کہا اصل آپ کی وردی لانے کے لیے فیلڈ ہیڈ کوارٹر گیا تھا مگر وردی نہیں ملی وہاں ایک افسر نے اپنی وردی آپ کے لیے بھیج دی ہے میجر عزیز بھٹی ہلکا سا مسکرائی اور بولے یہودی واپس لے جاؤ وردی اور کفن اپنا اپنا ہی اچھا لگتا ہے تھوڑی دیر بعد دشمن کی نقل وحمل کی بہتر طریقے سے جائزہ لینے کے لیے وہ نہر کے اوپر آئے اور وہاں دوربین سے مشاہدہ کرنے لگے حوالدار فیض علی پیچھے موجود تھے
دشمن کی طرف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا انہوں نے خطرناک صورتحال کے پیش نظر میجرعزیزبھٹی سے کہا سر آپ نیچے آجائے میجر عزیز بھٹی نے کہا نیچے سے جائزہ ہی نہیں ہو سکتا یہ اختر حضرو رہے مگر زندگی تو موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر وطن کی حفاظت کے لئے شہادت مقدر میں ہے تو میری خوش قسمتی ہے اتنے میں برکی سے لہر کی طرف چندٹینک پڑھتے نظر آئے ان ٹینکوں کے پیچھے پیدل فوج بھی تھی میجر عزیز بھٹی نے فائرنگ کا حکم دیا اور مسلسل دوربین سے دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لیتے رہے اسی دوران جب اپنے جوانوں کو فائرنگ کا حکم دے رہے تھے دشمن کے ٹینک سے فائر کیا ہوا ایک گولہ انہیں الگ اور وہ منہ کے بل زمین پر گری ساتھی ان کی طرف بڑھے مگر وہ جام شہادت نوش کر چکے تھے قوم کے اس بہادر بیٹے نے نا صرف اپنے کہنے کے مطابق دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا
بلکہ بہادری سے لڑتا ہوا جامی شہادت بھی نوش کرگیا اور میجر عزیز بھٹی کا نام تاریخ میں زندہ جاوید ہو گیا حکومت پاکستان نے اس عظیم قربانیوں پر انہیں ملک کا اعلی ترین اعزاز نشان حیدر دیا
0 Comments