قائد اعظم کی اصول پسندی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں

 جون 1947 میں بلوچستان میں ریفرنڈم ہونے والا تھا میں سندھ حکومت سے چھ ہفتے کی چھٹی لے کر کوئٹہ پہنچ گیا اور وہاں سرداروں سے مذاکرات شروع کیے کہ سرداروں ہی کو شاہی جرگہ کی میٹنگ میں اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ بلوچستان پاکستان میں شامل ہوگا یا انڈیا میں مذاق رات کی نازک مرحلوں سے گزر کر آخر کامیابی کی منزل تک پہنچ گئے تمام رکاوٹیں سر ہو چکی تھی کانگریسی لیڈر خان عبدالصمد اچکزئی اور ان کے ساتھ ہی مایوس ہو چکے تھے



اور صاف نظر آ رہا تھا کہ شاہی جرگہ پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دے گا لیکن این آخری مرحلے پر  مخالفوں نے ایک پریشان کو نکال جدید سے کھیل بٹ جانے کا خطرہ تھا سرداروں کو اس بات سے ڈرا دیا گیا کہ اگر پاکستان میں شامل ہوگئے تو مالی امداد جو اس وقت علی کی مرکزی حکومت سے مل رہی تھی بند ہو جائے گی اور سرداری حقوق اور مراعات بھی ختم ہو جائیں گے اگر انڈیا میں رہے تو حسب سابق مالی امداد اور سرداری حقوق قائم رہیں گے اس بات سے سردار بہت گھبرا گئے اور انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ قائداعظم اس بات کی گارنٹی دے کہ پاکستان بن جانے کے بعد سرداروں کے تمام حقوق محفوظ رہیں گے اور مرکز کی طرف سے جو مالی امداد اب ملتی ہے بدستور جاری رہے گی



یہ بڑا نازک مرحلہ تھا کیونکہ قائداعظم دہلی میں تھے اور شاہی لڑکے کے اجلاس میں صرف دو دن باقی تھے اتنی جلدی کا سے بات چیت کرنا بہت مشکل تھا آخر میں نے ایک ایکسپریس ٹیلی گرام کے ذریعے قائداعظم کو اطلاع دی کہ میں ٹیلیفون پر اگلے روز شام کے چار بجے ان سے ایک نہایت اہم بات کرنا چاہتا ہوں چنانچہ اسی وقت فون کے ذریعے دہلی سے رابطہ ہوا کوئٹہ کے ٹیلیفون محکمہ کے مسلمان ہونے نے بہت مدد کی قائداعظم فون پر آگئے اور آواز بلکل صاف تھی ایسے محسوس ہوا جیسے سامنے کھڑے ہیں ہیلو کے فورا بعد سلام عرض کی اور میں نے کہا کہ قائد اعظم بلوچستان کے سردار پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے پر رضا مند ہوگئے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ آپ انہیں گارنٹی دیں



کہ ان کے جملہ حقوق محفوظ نہیں رہیں گے اور مالی امداد انہیں حسب سابق ملتی رہے گی قائداعظم نے پرزور لہجے میں انگریزی میں جواب دیا  میں کوئی گرنٹی نہیں دے سکتا ان سے کہہ دو کہ وہ مجھ پر بھروسہ کریں اور دشمنوں کے جھانسے میں نہ آئے پھر قائداعظم نے مجھ سے پوچھا تم ان سے کیا کہو گے میں نے قائداعظم کے الفاظ دہرائے اور بھی آخری الفاظ میرے ہونٹوں پر تھا کہ نواب جوگزئ نے میرے ہاتھ سے ٹیلی فون لے لیا اور قائداعظم سے مخاطب ہو کر کئی بار قائداعظم قائداعظم پکارا اور ٹیلی فون رکھ دیا



شاہی جرگے کے سردار اس وقت سامنے بیٹھے تھے نواب جوگزئ نے اس سے مخاطب ہو کر کہا میری بات ہوگئی ہے قائداعظم نے کہا ہے فکر مت کرو پھر مجھ سے سرداروں نے دریافت کیا تو میں نے بھی یہی کہا کہ قائد کہتے ہیں مجھ پر بھروسہ کرو دشمنوں کے جھانسے میں نہانا مجھ پر اعتبار کرو اس کے بعد کوئٹہ کے اخبارات نے شام کے زمین میں شائع کر دیے اور قائداعظم سے ٹیلی فون پر بات ہی کی خبر چاروں طرف مشتہر کر دیں دوسرے دن شاہی جرگے نے تفاق رائے سے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا قائد اعظم کی اس بات پر مجھے سخت حیرت ہوئی تھی کہ اتنے نازک موقع پر بھی ڈپلومیسی سے کام نہ لیا اور دو ٹوک جواب دے دیا



جس میں کسی قسم کا رکھ رکھاؤ نہ تھا حال ہاں کے قائد کو اس بات کا علم تھا کہ کانگریسی ایجنٹ سرداروں کو اس قسم کی گارنٹی اور وعدے دے کر پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے وقت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ قائداعظم بھی کوئی سب دکھا کر وقتی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے لیکن انہوں نے بلاخطر صاف بات کہہ دی اور کسی قسم کے سودے بازی سے انکار کر دیا یہ ان کا بے نظیر کردار ایسے وقت میں جب کہ مملکت کی بقاء کا مسئلہ سامنے ہو اور صاف گوئی سے سخت نقصان کا احتمال ہو تو کوئی یہ جرات کر سکتا ہے کے سچ کا دامن تھامے رکھے




Post a Comment

0 Comments