ستمبر 1965 کو جب دشمن پاکستان پر حملہ آور ہوا

  تب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات اور ماحول میں دوسرے لوگوں کی طرح ہم بچوں کی نفسیات بھی بدل دی ابلاغ کا بڑا ذریعہ ریڈیو تھا سوری ڈیو پر فوجی خدمات اور محاذ جنگ کی خبریں ہمیں بھی جذباتی کیے رکھتی اور ہمارا بھی جی چاہتا کہ ہم سرحدوں پر جا پہنی مجھے یقین تھا کہ میں اپنی غلیل سے دشمن فوجوں کے سر پر چڑھنے میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا اس مقصد کے لئے میں نے مٹی کی بہت سی گولیاں بھی بنا لی تھی ریڈیو پر دفاعی فنڈ کا اعلان ہوا تو میں نے اپنے چند ہم عمروں کو جمع کیا ایک ٹھیلا کہیں سے حاصل کیا


مسجد کے مولوی صاحب کی منت سماجت کرکے مسجد کا ساونڈ سسٹم کیا اور ٹھیلے  پر رکھ کر اپنے قصبے کی گلیوں میں عطیات کی اپیل کرتے ہوئے گشت کرنے لگا میں چلا چلا کر کہہ رہا تھا حضرات یہ کفر اور باطل کی جنگ ہے آپ بڑھ چڑھ کر عطیات دے ایسے میں ایک بزرگ میرے قریب آئے اور مجھے سمجھاتے ہوئے کہنے لگے بیٹا کفر اور باطل نہیں حق اور باطل کہو ہائے میں بھی کس قدر بچہ تھا مجھے یاد ہے ایک بزرگ قریب آئے اور اپنی قمیض اتار کر ٹھیلے پر رکھ دی اور کہا کہ میرے پاس یہی ہے اور پھر خوب روۓ اور  اپنے آپ کو کوسنے لگے کہ آج کے دن کے لیے میں کیوں کچھ بچا کر نہ رکھ سکا



مجاہد فورس کا قافلہ  جنگ عظیم دوم کے پرانے ٹرکوں میں بیٹھ کر محاذ کی طرف روانہ ہوا تو ایک معذور شخص جس کی دونوں ٹانگیں نہ تھی ٹرک سے لٹک گیا اور بہت سے لوگ مل کر بھی اس سے ٹرک سے نہ اتار پائے مجھے یاد ہے ہم بچوں نے اسکول کے ہاتھ ٹائم میں ٹھیلوں  سے چھولے اور گولاگنڈا کھانا چھوڑ دیا اور ہر روز کا جیب خرچ ایک انا دفاعی فنڈمیں دے دیتے اس سال قربانی اور وطن سے محبت کی ان گنت مثالیں فلم کی طرح ذہن کے پردے پر چل رہی ہیں عثمان اور سلام اللہ سے شہادت کی آرزو لے کر نکلے اور پھر واپس نہ لوٹے



جنگ  ستمبر نے ہمارے لہو میں وطن کی محبت بھول دی ہم نے اس جنگ میں یہ جانا کے جنگ اچھی چیز تو نہیں لیکن اگر مسلط کر دی جائے تو پھر صرف بڑے ہی نہیں نونہال بھی ایثار اور قربانی کی مثالیں قائم کر سکتے ہیں

Post a Comment

0 Comments