تب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات اور ماحول میں دوسرے لوگوں کی طرح ہم بچوں کی نفسیات بھی بدل دی ابلاغ کا بڑا ذریعہ ریڈیو تھا سوری ڈیو پر فوجی خدمات اور محاذ جنگ کی خبریں ہمیں بھی جذباتی کیے رکھتی اور ہمارا بھی جی چاہتا کہ ہم سرحدوں پر جا پہنی مجھے یقین تھا کہ میں اپنی غلیل سے دشمن فوجوں کے سر پر چڑھنے میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا اس مقصد کے لئے میں نے مٹی کی بہت سی گولیاں بھی بنا لی تھی ریڈیو پر دفاعی فنڈ کا اعلان ہوا تو میں نے اپنے چند ہم عمروں کو جمع کیا ایک ٹھیلا کہیں سے حاصل کیا
مسجد کے مولوی صاحب کی منت سماجت کرکے مسجد کا ساونڈ سسٹم کیا اور ٹھیلے پر رکھ کر اپنے قصبے کی گلیوں میں عطیات کی اپیل کرتے ہوئے گشت کرنے لگا میں چلا چلا کر کہہ رہا تھا حضرات یہ کفر اور باطل کی جنگ ہے آپ بڑھ چڑھ کر عطیات دے ایسے میں ایک بزرگ میرے قریب آئے اور مجھے سمجھاتے ہوئے کہنے لگے بیٹا کفر اور باطل نہیں حق اور باطل کہو ہائے میں بھی کس قدر بچہ تھا مجھے یاد ہے ایک بزرگ قریب آئے اور اپنی قمیض اتار کر ٹھیلے پر رکھ دی اور کہا کہ میرے پاس یہی ہے اور پھر خوب روۓ اور اپنے آپ کو کوسنے لگے کہ آج کے دن کے لیے میں کیوں کچھ بچا کر نہ رکھ سکا
مجاہد فورس کا قافلہ جنگ عظیم دوم کے پرانے ٹرکوں میں بیٹھ کر محاذ کی طرف روانہ ہوا تو ایک معذور شخص جس کی دونوں ٹانگیں نہ تھی ٹرک سے لٹک گیا اور بہت سے لوگ مل کر بھی اس سے ٹرک سے نہ اتار پائے مجھے یاد ہے ہم بچوں نے اسکول کے ہاتھ ٹائم میں ٹھیلوں سے چھولے اور گولاگنڈا کھانا چھوڑ دیا اور ہر روز کا جیب خرچ ایک انا دفاعی فنڈمیں دے دیتے اس سال قربانی اور وطن سے محبت کی ان گنت مثالیں فلم کی طرح ذہن کے پردے پر چل رہی ہیں عثمان اور سلام اللہ سے شہادت کی آرزو لے کر نکلے اور پھر واپس نہ لوٹے
جنگ ستمبر نے ہمارے لہو میں وطن کی محبت بھول دی ہم نے اس جنگ میں یہ جانا کے جنگ اچھی چیز تو نہیں لیکن اگر مسلط کر دی جائے تو پھر صرف بڑے ہی نہیں نونہال بھی ایثار اور قربانی کی مثالیں قائم کر سکتے ہیں
0 Comments