یہ کہانی ہے ایک پراسرار گاؤں کی

 رات کا اندھیرا چہارسو پھیل چکا تھا ہر طرف خوفناک اور پر اسرار سناٹا چھایا ہوا تھا ایسے میں گاؤں کے قریب سے گزرنے والی سڑک پر بس رکی اس میں سے ایک خوش شکل اور در انداز قد 20 سالہ نوجوان باہر نکلا اور اپنا سفری بیگ کندھے پر ڈالا اور گھر جانے کے لیے تنگی کی تلاش میں ادھر ادھر نگاہ دوڑائی  ہولناک سناٹا چار سو پھیلا ہوا تھا رات کے اندھیرے میں درختوں پر بھوتوں کا گمان ہوتا اسے کبھی یقین تھا کہ وہ شام سے پہلے گاؤں پہنچ جائے گا وہ اپنے گھر والوں کو سرپرائز دینا چاہتا تھا وہ دو سال قبل شہر گیا تھا

اس نے پولیس کے محکمے میں دیے گئے امتحان پاس کرنے کے بعد پولیس کی ٹریننگ حاصل کی اب جبکہ وہ اپنی ٹریننگ بھی مکمل کر چکا تھا پولیس جوائن کرنے سے پہلے اسے ایک ماہ کی چھٹیاں ملی تھی وہ اس سے اپنے گاؤں میں گزارنی تھی اس کی گھر والوں سے ملنے کی بے چینی دیدنی تھی لیکن راستے میں بس کی خرابی کی بدولت ہوں نو بجے گاؤں پہنچا تھا اس وقت اسے وہاں اپنے علاوہ کوئی زی روح نظر نہ آیا ایسے میں تنگ ملنا محال تھا


اس سے بنا اطلاع کئے گاؤں آنے پر افسوس ہوا ماحول میں عجیب سی ہو نہ کی اور سفاکی تھی ایک دم وہ خود بھی گھبرا گیا لیکن یہ گھبراہٹ کوشش لمحوں بعد ختم ہوگئی خیر تنگ تو نہ ملا اس نے خود ہی   کھیتوں سے گزرنے والی سڑک پر چلنا شروع کر دیا ابھی وہ بمشکل پانچ منٹ کی مسافت پر ہی چلا ہوگا کہ اس سے اپنے دائیں جانب سے تو میں ہلچل سی محسوس ہوئی وہ بے حد حیران ہوا کہ اس وقت تو گاؤں کے لوگ سو جاتے ہیں کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو اس اندھیری رات میں کھیتوں میں ہو گا کیوں کے ہوا کا تو نہ میں نشان نہ تھا اسے لگتا کہ ہوا سے کھیل رہے ہیں وہ اسے نظر انداز کرکے پھر سے چلنا شروع ہو گیا پیچھے جہاں بس کر رکھی تھیں وہاں ایک مدرسہ بلب لگا تھا جس کی مدد سے آیا تھا اب آگے کوئی بلب نہ تھا اس لیے اس کو اپنی جیب سے موبائل نکال کر توجہ ان کرنا پڑی



اور ٹارچ کی روشنی میں چلنا شروع کر دیا ابھی آدھا راستہ بھی طے نہیں ہوا تھا کہ اسے ایسے لگا کے جیسے اس کے پیچھے پیچھے کوئی آ رہا ہے اس نے مڑ کر دیکھا تو اسے کوئی وہاں کوئی نظر نہ آیا اس نے اپنا وہم جان کر پھر سے چلنا شروع کر دیا بھارت طرف ہو کا عالم تھا اس کے اپنے قدموں کی آواز بھی ماحول میں خوف نہ کی مزید بڑھا رہی تھی اچانک فضا میں ایک نسوانی چیخ گونجی ایک دم گھبرا کے وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا اب کی بار تو اس کو غور سے پسینہ بھی آ گیا تھا حالانکہ بہادر تو وہ تھا ہی لیکن اس طرح کی صورتحال سے پہلی دفعہ دوچار ہوا تھا ابھی وہ اس کیفیت سے نکلا ہی تھا کہ اس کو کھیتوں میں بہت سے لوگوں کے قدموں کی چاپ سنائی دیں جو لمحہ بہ لمحہ اس کی طرف بڑھ رہی تھی احمد کا دل خوف سے اچھل کر حلق میں آگیا



احمد کے ابا میرا آج دل بیٹھ رہا ہے میرا احمد خیریت سے ہوں مجھے سکون نہیں ہے رحمت بیوی نے کمرے میں لالٹین کی دینی جلدی میں چارپائی سے اٹھتے ہوئے کہا او بھلیے لوکے کچھ نہیں ہوتا احمد ٹھیک ہی ہوگا بس آ جائے گا کچھ دنوں میں شفیق صاحب رحمت بی بی کو دلاسہ دیتے ہوئے گویا ہوۓ اللہ خیر کرے رحمت بھی دی دعا مانگتے ہوئے رو پڑیں ان کی حالت دیکھ کر شفیق صاحب بھی پریشان ہوگئے وہ بھی دل ہی دل میں احمد کے خیریت  سے ہونے کی دعا کرنے لگے قدموں کی آواز لمحہ بہ لمحہ قریب تر ہوتی جا رہی تھی احمد کے تو سارے اوسان خطا ہوگئے تھے اس نے بھی بنا پیچھے دیکھے بھاگنا شروع کر دیا تیز تیز بھاگنے کے باوجود ان لوگوں کے قدموں کی آوازیں قریب ہوئے جا رہی تھی اور اس کے ہوش و حواس جیسے کام کرنا چھوڑ گئے تھے اندھا دھند بھاگنے کے بعد وہ گھر کے دروازے پر پہنچ کر ہی رکا اور دروازہ پیٹنے لگا وہ لوگ جن کے اندھیرے کے سوا کچھ پلے نہیں دیکھ سکا تھا اس کے سر پر پہنچنے ہی لگے تھے کہ دروازہ کھلا اور اس کو اندر کھینچ کر دروازہ بند کر لیا گیا


او بھلیے لوکے کیوں پریشان ہو رہی ہوں اور بھی یقین رکھو ہمارا احمد بالکل خیریت سے ہو گا اور خیریت سے ہیں گھر آئے گا شفیق صاحب رحمت بی بی کو مسلسل روتے دیکھ کر پریشان ہو گئے تھے اتنے میں انھیں دھڑا دھڑ بیرونی دروازے پیٹنے کی آواز آئی کوئی ایسے دروازہ کو پیٹ رہا تھا جیسے توڑ کر اندر آنا چاہ رہا ہو جیسے ہی دروازے کے قریب پہنچے انہیں احمد کی آواز آئی انہوں نے جھٹ سے دروازہ کھولا اور  اور احمد کو کھینچتے ہوئے اندر کیا اور فورا دروازہ بند کردیا اور احمد اندر آتے ہی بے ہوش ہوگیا اور لڑ کر گرنے ہی لگا تھا کہ شفیق صاحب نے اسے تھام لیا اور کندھے پر ڈال کر کمرے میں لے گئے اور چارپائی پر ڈال دیا



دیکھا میں نے کہا تھا نہ میرا دل ایسے ہی نہیں گھبرا رہا تھا رحمت بی بی احمد کو دیکھتے ہی بولنا شروع ہو گئی تم تو چپ کرو اور جاؤ پانی لے کر آؤ شفیق صاحب احمد کی گال کو تھپتھپاتے ہوئے بولے پھر پانی کے چھینٹے آمد کے منہ پر مارے آہستہ آہستہ احمد کی حالت سنبھلنے لگی جاؤ احمد کی ماں کا گانا لے کر آؤ احمد کے لیے ہاں بیٹا اب بتاؤ تمہیں کس نے کہا تھا کہ تم رات کے وقت گاؤں اور وہ بھی بنا کسی اطلاع کے بیبی جان کے کمرے سے نکلتے بابا جان شروع ہوگئے بابا جان میرے ساتھ ایک بہت ہی حیران کن واقعہ پیش آیا احمد بابا جان کی بات کا جواب دینے کی بجائے واقع کی روداد سنانے لگا شفیق صاحب پوری روداد سننے کے بعد بولے بیٹا تم کھانا وغیرہ کھاؤ پھر میں تمہیں بتاؤں گا فون پر اس لئے نہیں بتایا تھا کہ تم پریشان ہو کر اپنی ٹریننگ چھوڑ کر یہاں نہ آ جاؤ اس لئے ہم نے یہ بات تم سے چھپائی



بابا جان آپ لوگ اتنی پریشانی والی زندگی گزاریں اور میں وہاں کیسے آرام سے رہ سکتا تھا احمد ناراضی سے بولا اتنے میں احمد کے لئے بی بی جان کھانا گرم کر کے لے آئیں  کھانا کھانے کے بعد ماں جی برتن رکھنے چلی گئی اور وہ اباجان کی طرف متوجہ ہوا شفیق صاحب اس کی آنکھوں میں عمر آنے والے سوالوں کو دیکھ کر گہری سانس بھرتے ہوئے بولے بیٹا یہ جو لوگ تمہارے پیچھے لگے تھے یہ بہت خطرناک لوگ ہیں ان لوگوں کو یہاں گاؤں میں آئے تقریبا ایک سال ہوگیا ہے ان لوگوں کی وجہ سے گاؤں میں بہت ہی زیادہ خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے گاؤں کے لوگ سارا دن اپنا کام کرتے ہیں اور مغرب ہونے سے پہلے پہلے اپنے گھروں میں چلے جاتے ہیں اگر کوئی شام کو اپنے گھر سے باہر نکل جائے تو وہ لوگ اس کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور اگر کوئی ان لوگوں کا کھوج لگانے کی کوشش کرے تو پتہ بھی نہیں چلتا وہ کب اور کیسے غائب ہو جاتا چار لوگ تو اسی کام میں مارے بھی گئے ہیں اس وجہ سے اب گاؤں میں کوئی بھی ان کے خلاف جانے کا سوچتا بھی نہیں ہے



بابا جان آپ لوگ اتنی پریشانی والی زندگی گزاریں اور میں وہاں کیسے آرام سے رہ سکتا تھا احمد ناراضی سے بولا اتنے میں احمد کے لئے بی بی جان کھانا گرم کر کے لے آئیں  کھانا کھانے کے بعد ماں جی برتن رکھنے چلی گئی اور وہ اباجان کی طرف متوجہ ہوا شفیق صاحب اس کی آنکھوں میں عمر آنے والے سوالوں کو دیکھ کر گہری سانس بھرتے ہوئے بولے بیٹا یہ جو لوگ تمہارے پیچھے لگے تھے یہ بہت خطرناک لوگ ہیں ان لوگوں کو یہاں گاؤں میں آئے تقریبا ایک سال ہوگیا ہے ان لوگوں کی وجہ سے گاؤں میں بہت ہی زیادہ خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے گاؤں کے لوگ سارا دن اپنا کام کرتے ہیں اور مغرب ہونے سے پہلے پہلے اپنے گھروں میں چلے جاتے ہیں اگر کوئی شام کو اپنے گھر سے باہر نکل جائے تو وہ لوگ اس کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور اگر کوئی ان لوگوں کا کھوج لگانے کی کوشش کرے تو پتہ بھی نہیں چلتا وہ کب اور کیسے غائب ہو جاتا چار لوگ تو اسی کام میں مارے بھی گئے ہیں اس وجہ سے اب گاؤں میں کوئی بھی ان کے خلاف جانے کا سوچتا بھی نہیں ہے




نہ بیٹا تم سوچنا بھی نا اس بارے میں تم ہماری عقلوں کی اولاد ہو ہم میں تمہیں کھونے کا حوصلہ نہیں ہے تمہاری جوب لگ گئی ہے تھوڑے حالات بہتر ہوں گے تو ہم سب شہر شیف تو ہوجائیں گے بہتر ہے تم اس سے دور رہو شفیق صاحب نے سختی سے تنبیہ کی لیکن بابا میں اپنے گاؤں والوں کو مشکل میں چھوڑ کر نہیں جا سکتا میں گاؤں والوں کو اس سے مصیبت سے چھٹکارا دلاؤں گا ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں شفیق صاحب نے احمد کے پر عزم و ارادے کے سامنے ہار مان لی



احمد اپنے کمرے میں آگیا پلنگ پر لیٹتے ہوئے بھی اس مسئلے کا حل سوچ رہا تھا خیر صبح دیکھیں گے یہ کہ کر وہ کروٹ بدل کر لیٹ گیا اور جلد ہی گہری نیند کی وادی میں اتر گیا اگلی صبح بہت ہی خوشگوار تھی موسم بھی سہانا تھا اندھیری رات کے بعد اگلی صبح بہت ہی روشن تھی سورج کی تپش کے ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی جو سورج کی تپش کو کم کردیتی تھی چرندے پرندے بھی اپنے گھونسلوں سے نکل کر اپنی روزی کی تلاش میں نکل پڑے تھے احمد  نہا دھو کر ماں جی کے ہاتھوں کا مزے دار پراٹھا اور آملیٹ کھایا اور میٹھی لسی پی



گاؤں کے لوگ بہت ہی پریشان حال اور ڈرے سہمے تھے کوئی خوشی اعتماد کی روشنی ان کے چہروں پر نظر نہ آتی تھی احمد کو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا وہ ان کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا ان کی خوشی ان کو لوٹ آنا چاہتا تھا وہ پھر سے ان کے بارے میں سوچنے لگا رات کے کھانے پر اس نے بابا جان سے پوچھا بابا جان آخر وہ کون لوگ ہیں اور چاہتے کیا ہیں کیوں انہوں نے گاؤں میں اتنا خوف پھیلایا ہوا ہے ہم نے جب کہ بعد دیگرے کئی سوالات کر ڈالے بیٹا ان کی شکل تو آج تک کسی نے نہیں دیکھی بس یہ ہے کہ وہ لوگ اگر گاؤں میں آئی بھی تو وہ سر سے پاؤں تک سفید ہوتے ہیں انہوں نے سفید چغہ پہنے ہوتے ہیں اور منہ پر ماسک لگایا ہوا ہوتا ہے اور اچھا اس کا مطلب ہے کہ وہ جو بھی ہیں بہت سوچ سمجھ کر رہے ہیں



احمد پور سوچ انداز میں بولا احمد اپنے کمرے میں آگیا اس نے اپنے دوست احسن کو فون کیا جو اس کے ساتھ ہی پولیس  ٹریننگ میں تھا اس کے علاوہ چار دوست سے وہ چاروں پولیس  ٹریننگ میں ماہر ہو چکے تھے  احمد نے ایسا کو فون کیا اور اسے یہاں کی ساری صورتحال کے بارے میں بتایا اور ضروری سامان بھی ساتھ لانے کو کہا مزید کے وہ لوگ دھیان سے اور خود کو بچا کر آئیں ہاں اور تم لوگ کل صبح ہی نکل آنا تھا کہ شام ہونے سے پہلے گاؤں پہنچ جاؤ اوکے ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا یہ کہہ کر احمد مطمئن ہو گیا احمد پور سوچ انداز میں بولا احمد اپنے کمرے میں آگیا اس نے اپنے دوست احسن کو فون کیا جو اس کے ساتھ ہی پولیس  ٹریننگ میں تھا اس کے علاوہ چار دوست سے وہ چاروں پولیس  ٹریننگ میں ماہر ہو چکے تھے  احمد نے ایسا کو فون کیا اور اسے یہاں کی ساری صورتحال کے بارے میں بتایا اور ضروری سامان بھی ساتھ لانے کو کہا مزید کے وہ لوگ دھیان سے اور خود کو بچا کر آئیں ہاں اور تم لوگ کل صبح ہی نکل آنا تھا کہ شام ہونے سے پہلے گاؤں پہنچ جاؤ اوکے ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا یہ کہہ کر احمد مطمئن ہو گیا



کیفے میں بیٹھے وہ تینوں دوست کول ڈرنک اور برگر سے بھرپور انصاف کر رہے تھے جب ان میں سے احسن کا موبائل بجا اور احمد کی کال آنے کا باقیوں کو بتا کر اس نے فون اٹھایا اور جو احمد نے اس کو بتایا تھا اس نے  بلال اور شہزاد کو بھی بتا دیا ان دونوں نے بھی جوش اور ولولے سے جانے کی حامی بھری اگلے دن تینوں جانے کی تیاری کرنے لگے صبح ہیں وہ لوگ تیار ہو کر گاؤں کے لئےنکل پڑے وہ دن کی روشنی میں ہیں جلد از جلد پہنچ جانا چاہتے تھے


اس لئے وہ لوگ صبح کے 10 بجے ہیں گاؤں جانے والی بس میں سوار ہو گئے احمد حسن کو فون کرنے کے بعد سیدھا ماں جی کے پاس آیا تھا کیوں کہ اسے ماں جی کو اپنے دوستوں کی آمد کا بتا کر ان کے رہنے کا بندوبست کرنا تھا ٹھیک ہے بیٹا میں اوپر چھت والا کمرہ صاف کر دوں گی ماں  جی  دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھی  اب احمد کو بس فکر یہ تھی کہ وہ لوگ خیریت سے آجائیں اتنا تو یقین تھا کہ وہ ان سے بچ کر آجائیں گے کیفے میں بیٹھے وہ تینوں دوست کول ڈرنک اور برگر سے بھرپور انصاف کر رہے تھے جب ان میں سے احسن کا موبائل بجا اور احمد کی کال آنے کا باقیوں کو بتا کر اس نے فون اٹھایا اور جو احمد نے اس کو بتایا تھا اس نے  بلال اور شہزاد کو بھی بتا دیا ان دونوں نے بھی جوش اور ولولے سے جانے کی حامی بھری اگلے دن تینوں جانے کی تیاری کرنے لگے صبح ہیں وہ لوگ تیار ہو کر گاؤں کے لئےنکل پڑے وہ دن کی روشنی میں ہیں جلد از جلد پہنچ جانا چاہتے تھے



کیوں کے باہر عنہ ٹریننگ کا ثبوت جو دینا تھا احمد سوچ کر مسکرایا اور گاؤں کے اطراف کا جائزہ لینے کے لئے گھر س نکل پڑا  احسن بلال اور شہزاد گاؤں کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب ڈاکٹر نے ان کے مطلوبہ گاؤں کی آواز لگائی وہ تینوں اپنے اپنے بیگ اٹھا کر بس سے باہر نکلے دل میں تھوڑا ہی وقت کا سورج کی زرد کرنوں سے کھیتوں میں کھڑی فصلیں چمک رہی تھی اور بے حد خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی


ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بھی چل رہی تھی جس نے موسم کو خوشگوار بنایا ہوا تھا یار جتنی احمد نے گاؤں کے بارے میں خوفناک باتیں بتائی ہیں گاؤں کو دیکھ کر لگتا تو نہیں ہے کہ اس میں ایسا کچھ ہو سکتا ہے بلال اپنے بیگ کو دوسرے کاندھے پر منتقل کرتے ہوئے بولا ہاں یار جلدی چلو اس سے پہلے کے اندھیرا ہو جائے ایسا گے کھیتوں میں بنی ایک پر تیز تیز قدموں سے 


Post a Comment

0 Comments