سیرت حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسط نمبر8

                       قبول اسلام



حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیشہ کے لحاظ سے کپڑے کے تاجر تھے اور ملک شام اور یمن میں تجارت کی غرض سے تشریف لے جایا کرتے تھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت نبوت کا اعلان کیا آپ رضی اللہ عنہ اس وقت ملک شام تجارت کی غرض سے گئے ہوئے تھے آپ رضی اللہ عنہ جب واپس آئے تو آپ رضی اللہ عنہ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بارے میں معلوم ہوا

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو بھی دعوت اسلام دی جسے اب رضی اللہ انہوں نے صدق دل سے قبول کرلیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے امام سہیلی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دعوت اسلام دی تو حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی تردد  کہ اس دعوت کو قبول فرما لیا آپ رضی اللہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے خواب میں چاند دیکھا جو مکہ مکرمہ کی طرف نازل ہوا اور ہر گھر میں علیحدہ علیحدہ داخل ہوا





وہ چاند جس گھر میں بھی داخل ہوا وہ انور چمک اٹھا 



پھر وہ چاند میرے گھر میں داخل ہوا اور میری بہت میں جمع ہوگیا آپ رضی اللہ عنہ نے جب اپنے اس خواب کی تعبیر چند اہل کتاب سے معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ جس نبی کا انتظار تھا اس کی آمد ہوچکی ہے اور تم اس نبی کے دامن سے وابستہ ہوگئے اور تمام لوگوں سے زیادہ سعادت مند ہوں گے


حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں خانہ کعبہ کیسے ہیں میں تشریف فرما تھا زید بن عمر بھی میرے ہمراہ تھے اس دوران امیہ بن ابی صلعت جو کہ شاعر تھا وہاں سے گزرا اور اس نے زید سے کہا خیر کے متلاشی تم کیسے ہو زید نے جواب دیا خیریت  سے ہو امیہ بن ابی صلعت نے پوچھا کیا تم نے پا لیا ہے زید میں کہا نہیں کب امیہ بن ابی صلعت یہ شعر پڑھا جس کا مفہوم تھا کہ قیامت کے دن سارے دین نکل جائیں گے اور صرف ایک دن باقی رہ جائے گا جس کا فیصلہ اللہ عزوجل فرمائے گا



پھر امیہ بن ابی صلعت میں نے کہا جس کا تمہیں انتظار ہے وہ ہم میں سے ہوگا یا پھر اہل فلسطین میں سے ہوگا 


حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امیہ  بن ابی صلعت کی بات سن کر میں ورقہ بن نوفل کے پاس گیا جنہوں نے مجھے کہا ہاں بچی جے ایک نبی کا انتظار تو ہے اور اہل کتاب اور علماء کا اصرار ہے کہ وہ شخص منکر عرب کی بہترین نسل میں سے ہوگا




تہذیب تاریخ ابن عساکر میں منقول ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بعست نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ملک  یمن تجارت کی غرض سے گئے ملک یمن میں عارضی اللہ عنہ کی ملاقات قبیلہ عزت کی ایک عمر رسیدہ عالم دین سے ہوئی جو کہ تمام  آسمانی کتابوں کا عالم تھا اس نے جب آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو دریافت کیا کے تم حرم کے رہنے والے ہو اور رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں میں اہل حرم میں سے ہوں اس عالم نے پوچھا کیا تم قریشی ہو  آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا  میں تیمی ہون  اور میرا نام عبداللہ ہے



عالم نے آپ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم ایک نبی کے ساتھی بنو گے جو عنقریب نمودار ہونے والا ہے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا جب ملک شام اور ملک یمن کے سفر کے بعد مکہ مکرمہ واپس آئے تو آپ رضی اللہ عنہ کو سفر کی کامیابی کی مبارک باد دینے کے لیے سرداران قریش کا ایک وفد آیا اور کامیاب تجارتی سفر کی مبارک باد دی اور کہنے لگے تمہارے دوست محمد بن عبداللہ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ہمارے آبا و اجداد کے دین کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے ہم تمہارے ہی انتظار میں تھے کہ تم اور تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لو



حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسی وقت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر تشریف لے گئے



 اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باہر آنے کی درخواست کی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے  ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کی دعوت دے رہے ہیں اور نبی برحق ہونے کا دعوی کرتے ہیں



حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے پروردگار نے مجھے ایک خاص مقصد کے لئے فرمایا ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کو خدائے واحد کی عبادت کی تلقین کرو انہیں برے کاموں سے روکو اور ان تک الفاظ وجل کا پیغام پہنچا ہوں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن کر فرمایا بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہوٹ نہیں بولتے





آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس منصب علی کے اہل ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم امانتدار ہی رحم کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے کام کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اچھے کام کرنے کی تلقین کرتے ہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست حق پر بات کرتا ہوں اور اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور پھر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں نے قبول کرلیا




حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے دعویٰ نبوت کی دلیل مانگی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ملک شام میں ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر کی تونے معلوم کی تھی پھر تو ملک یمن میں ایک عالم سے ملا تھا جس نے تجھے خبر دی تھی




حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب یہ باتیں سنیں تو حیرانگی سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تمام باتوں کی خبر کس نے دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس عظیم فرشتہ نے جو مجھ سے پہلے انبیاء پر نازل ہوتا رہا ہے چنانچہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں نے اسی وقت اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں دے دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی برحق ہونے کی گواہی دے دی



حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے والے دوسرے شخص تھے آپ  آپ رضی اللہ عنہ سے پہلے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تھا






حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے پوچھا کہ مہاجرین اور انصار نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت میں سبقت کیوں کی جب کہ آپ رضی اللہ عنہ کو ان پر فوقیت حاصل تھی حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ انہوں نے جواب دیا کے حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چار باتوں میں فوقیت حاصل تھی میں ان کا ہمسر نہیں تھا اسلام کا اعلان کرنے میں  ہجرت میں پہل کرنے والوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے اور اعلان یا نماز قائم کرنے میں وہ مجھ سے آگے تھے




انہوں نے اس وقت اسلام کا اظہار کیا جب کہ میں اسے چھپا رہا تھا وہ ریش مجھ کو حقیر سمجھتے تھے جب کہ وہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پورا پورا وزن دیتے تھے اللہ کی قسم اگر حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کی یہ خصوصیات نہ ہوتی تو اسلام اس طرح نہ پھیلتا اور طالوت کے ساتھیوں سے نہر سے پانی پی کر جس کردار کا اظہار کیا تھا اسی طرح کے کردار کا اظہار لوگ یہاں بھی کرتے دیکھتے نہیں کی جہاں اللہ تعالی نے دوسرے لوگوں کو ڈھانپا وہاں حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تعریف بھی کی





امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے اور اس بات کی تائید ترمذی شریف کی حدیث سے بھی ہوتی ہے مردوں میں سب سے پہلے اسلام حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ انہوں نے قبول کیا عورتوں میں سب سے پہلے اسلام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے قبول کیا جب کہ بچوں میں سب سے پہلے اسلام حضرت سیدنا  علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے قبول کیا







Post a Comment

0 Comments