فلسطین کا ذکر

  بحرمتوسط اس کے مستقیم ساحل پر جو ایشیائے کوچک اور شمالی مصر کے درمیان واقع ہے


 ایک اور استانی علاقہ ہے جو سمندر سے سحر ایشن زار تک فرات کے مغرب میں ہے چلا گیا ہے اس زمین کا شمالی حصہ جو دو بلند پہاڑی سلسلوں یا نیلم بان اور کوہ شرقی کے درمیان واقع ہے اس سے سوریا کہتے ہیں کوہ سر کیسے وہ پاڑہ مراد ہے جس سے فرانسیسی میں انٹیلی بان کہتے ہیں اور جنوبی حصہ جس کے پہاڑ کم بلند ہیں اسے  فلسطین کہتے ہیں




 جب سمندر کی طرف سے اس سرزمین میں پہنچتے ہیں تو زمین کے تنگ حصہ کو عبور کرنے کے بعد ناہموار راہوں اور گہرے نصیبوں سے گزر کر کوہستان میں داخل ہوتے ہیں وہ زمین خاکستری رنگ کے ٹیلوں سے پر ہے جن کی چوٹیاں مزدور ہیں اور ٹیلوں کے ڈھلوان دامنوں میں فقط چھوٹے چھوٹے درخت لگے ہوئے ہیں ان بہاڑوں میں قدرتی والے بہت ہیں جن میں وہاں کے رہنے والے اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں



 ٹیلوں کے اوپر شہراورگاؤں آباد ہیں 


ان آبادیوں سے مراد صرف چند گھر ہیں جن کی چھتیں مصطفیٰ اور بغیر روشندان کے ہیں اور جو گویا سنگ سفید کے موقف کو اٹھے ہیں پتھریلے اور تندور بھی وہاں پر بکثرت ہیں جو پانی کی روانی کا ذریعہ ہیں یعنی شدید بارش کے بعد ان میں بہت زور و شور سے پانی بہتا ہے اور پتھر بڑے بڑے تختوں کو بہا لے جاتا ہے مگر کی دنوں میں وہاں بہت کم پانی رہ جاتا ہے



 مشرقی پہاڑوں کے دامن میں اور نکاح میں قدر رہا اور جیل مردار بہ نیت اور اس طرف سے دریا آبشار کی مانند بہت تیری کے ساتھ نیچے کی طرف بہتے ہیں ان میں سب سے بڑا سمندر سدھر نہیں ہے جو کہ بیت المقدس کے نیچے سے گزرتا ہے اس ملک میں چونے کے ڈیرے بھی اکثر پائے جاتے ہیں اس وقت میں چونے کے ٹیلوں کا جو سلسلہ سمندر تک پھیلتا ہے اسے کار ملنی باغ کہتے ہیں فون ٹیلوں کی سب سے اونچی چوٹی 550 میٹر سے زیادہ بلند ہے کیونکہ اس کے آگے کوئی اور پہاڑ ایل نہیں اس لیے وہ سمندر سے بلند نظر آتا ہے



 اس کے دامن میں بڑے بڑے درختوں کے جھنڈ آگئے ہوئے ہیں 


اور اس کے چشموں کے قریب پھولوں کا چمن سے زمین گلپوش ہو رہی ہے کارمل حضرت الیاس پیغمبر کا پہاڑ ہے کر مل کے نیچے اسد رائے بچن کا سبزہ زار پھیلا ہے جودہشت فلسطین کا سب سے بڑا اور زرخیز حصہ ہے اور یہ کہ در زمین سی سیاہ مٹی کا ہے جس میں آتش فشانی خاک بھی ملی ہوئی ہے اور بڑا درجات کزن کہانی بن اس میں بہتا ہے جو سمندر تک پہنچتا اور فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے




 جو زمین اس کے شمال میں ہی اس کو جلیل کہتے ہیں اس کے پہاڑ زیادہ بلند چشم زیادہ گہرے اور چوڑے اور اوپر چراگاہیں زیادہ شاداب ہیں سبحان انجیر انار انگور اور سے بہت ہوتا ہے جنوب کی طرف پہاڑ کے قریب کوہت عبور واقع ہے یہ پہاڑ کرم سے دس میٹر زیادہ بلند یعنی پانچ سو ساٹھ میٹر اونچا ہے مگر دیکھنے میں اس کی بلندی کم معلوم ہوتی ہے کیونکہ اور پہاڑ اس کے آگے حائل ہیں کوہ صفا بورڈ کے دامن میں منجن زمین ہے جہاں ایک بھی درخت نہیں اس کی چوٹی پر آج کل تین گرجے اور تین خانقاہی عیسائیوں کی پائی جاتی ہیں جو روم کی شرقی سلطنت کے زمانہ میں بنائی گئی تھی



 جلیل کے شمال میں ایک بہت بلند پہاڑ ہے جس کا نام خرمن ہے اس کے پتھر سیاہ اور آتش فشانی ہے یہ بہت ناہموار پہاڑ ہے اس کی چھوٹی دین لوگوں پر ختم ہوتی ہے وہ 2800 27 میٹر اونچا ہے اس کے اوپر سے ایک طرف دریا تک دیکھ سکتے ہیں دوسری طرف حدّنظر سوریا کا جنگل ہے فلسطین میں دو فصلوں سے زیادہ نہیں ہوتی ایک جاڑوں میں دوسری گرمیوں میں وسط ماہ اکتوبر سے بارش کا آغاز ہوتا ہے پہاڑوں کے دامن میں پانی خوب برسا تھا غیر اورسیلاب گاہوں کو پر کر دیتا ہے اس وقت ہوا ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور اکثر رات کو پہاڑوں پر پانی جم جاتا ہے لیکن صرف بہت کم غلطی ہے وسط مارچ میں بارش بند ہو جاتی ہے اور کبھی چند ماہ گزر جاتے ہیں کہ پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں گرتا




 چند روز کی مدت میں زمین کا نصف اور پھولوں سے پٹے جاتی ہے اور ریت پر مختلف رنگوں کا فرض ہو جاتا ہے


 اور او ایل جون میں آفتاب سب چیزوں کو جلا دیتا ہے اور مشرقی ہوا جو جنگل سے چلتی ہے نباتات کو خشک کر دیتی ہے اور ملک دوبارہ بنجر ہو جاتا ہے صرف چھوٹے چھوٹے درخت گردو غبار سے اٹے ہوئے باقی رہ جاتے ہیں دن کے وقت گرمی شدید ہوتی ہے اور رات کے وقت شبنم افراد سے گرتی ہے صوبہ کا کوہ نور کا دھوادار سامان نظر آتا ہے یہ ملک خشک اور بے حاصل ہے لیکن اگلے زمانہ میں اس کے پہاڑ کاج سرور نظر سے بھرے ہوئے تھے اور آب و ہوا بھی موت تھی



 ندیوں کو وہ اور جھیلوں سے اس سرزمین کی آب رسانی کی جاتی تھی اور اس کے دروں میں جو اور گندم بہت پیدا ہوتی ہے تھا دان ایسے بھی بوئے جاتے تھے اور اس سے کپڑے بھی بنتے جاتے تھے ٹیلوں کے دامن میں پتھروں کی چاردیواری بناتے اور اس کے اندر زیتون انجیر انگور بادام اور پستہ کے درخت بولتے تھے ان درختوں میں پانی کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی





 ان لوگوں کا تفریحی مشغلہ یہ تھا کہ کام کرنے کے بعد اپنے باغوں میں انگور اور انجیر کے درختوں کے نیچے بیٹھے اور ان باغوں کی زمین میں چند چنبا نرگس اور لالہ کے پھول بوی پہاڑی زمینوں میں اور جنگلوں کے قریب ہوں اپنی بکریوں اور بھیڑوں کے گلے چراتے تھے اور گائے پالتے تھے گدھے جو اس ملک میں گھوڑوں کے قائم مقام ہوتے ہیں کانٹے دار گھاس کھاتے تھےا





Post a Comment

0 Comments