قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ مردہ کی مثال یعنی روح بھی ایک زندہ آدمی کی مانند
ضروریات رکھتی ہے اور غذا اور لباس اور مکان کی ضرورت مند رہتی ہے اممی ای شدہ جس کو دفن کر دیا کرتے تھےbest books on islam history لیکن عمر ان کے لئے مکان بناتے تھے ان کو منزل اب بھی کہتے تھے یہ مکان ایک وسیع یا کم سے کم ایک کمرہ کی مانند ہوتا تھا اول سلسلوں کےbest books on islam history بادشاہوں کے زمانہ میں غالباً یہ نہ خانہ ہر ایک شہر کی رات کے برابر ہے
مقبرے کے لیے ریت کے نیچے یا پتھر میخانہ بناتے تھے
اور اس کے مقابلے میں ایک چھوٹا نماز ہونا جو باہر کی طرف کھلتا تھا جب اس نماز کا نام میں داخل ہوتا تو اس کے آخر میں ایک بڑی سی نظر آتی تھی جیسے اٹھا کر رکھا ہو اس کے نیچے ایک چھوٹی میں ہوتی تھی جس پر نذر و نیاز کے لیے چیزیں رکھتے تھے یہ نماز کا نام مقبرہ کا صرف وہ حصہ ہے جہاں زندہ انسان جا سکتے تھے باقی حصہ مردہ کے لیے ہوتا تھا اور وہ ہم کسی کو جاکر مرحوم کے لئے باعث زحمت ہونے سزا اور انہیں ہوتی تھی اس لئے مقبرہ کا دروازہ نہ بناتے تھے best books on islam history
نماز خانہ کی آخری دیوار کی پشت پر ایک دالان بہت تنگ و تاریک ہوتا تھا وہاں مردوں کے جسم رکھتے تھے
اور کبھی ایک مردہ کے لئے بھی سے زیادہ مجھے جس میں ہوتے تھے اس کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی بندہ جس خراب ہو جائے تو اس کی جگہ کا یہ کام دے مجھے اس میں مردے کی سنگین مورت ہوتے تھے نماز خانہ کے ایک کونے میں ایک کنواں پتھروں کا تراش کر یا کر کے تختوں کی جدائی کا بنایا جاتا تھا جو 12 15 بلکہ کبھی 30 میٹر گہرائی تک کا ہوتا تھا اور کوئی کی انتہائی ایک ایک چھوٹا راستہ بنا ہوتا تھا جو اس کے غار تک جاتا تھا جو پتھروں کو تراش کر بنایا جاتا تھا وہ مردوں کا اصلی مکان ہوتا تھا اور اس کے وسط میں ایک بڑا تابوت میں مزید 450 فید تھرکا رکھتے تھے
اس میں مردہ ابدی خاموشی کے ساتھ سوتا تھا مقبرہ میں کام کرنے والے مریض کو گھیرے میں لے جا کر رکھ دیتے تھے اور اس کے پہلو میں بڑے بڑے برتن پانی سے بھر کر اور ماں اور گیو اور گائے کا گوشت رکھ دیتے تھے اس کے بعد اس راستہ کو بند کر کے لوگوں کو پتھروں کی طرف سے بات کر رہے تھے
0 Comments